صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
38. باب : اللہ پاک کا سورۃ ص میں فرمانا‘ ہمارے زوردار بندے داؤد کا ذکر کر‘ وہ خدا کی طرف رجوع ہونے والا تھا ۔
باب : اللہ پاک کا سورۃ ص میں فرمانا‘ ہمارے زوردار بندے داؤد کا ذکر کر‘ وہ خدا کی طرف رجوع ہونے والا تھا ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "... And remember Our slave Dawud, endued with power...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کے ارشاد وفصل الخطاب تک ( یعنی فیصلہ کرنے والی تقریر ہم نے انہیں عطا کی تھی ) مجاہد نے کہا کہ فصل الخطاب سے مراد فیصلے کی سوجھ بوجھ ہے ۔ والاتشططیعنی بے انصافی نہ کر اور ہمیں سیدھی راہ بتا‘ یہ شخص میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے نعجۃ ( دنبیاں ) ہیں “ ۔ عورت کے لئے بھی نعجۃکا لفظ استعمال ہوتا ہے اورنعجۃ بکری کو بھی کہتے ہیں ” اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے‘ سویہ کہتا ہے وہ بھی مجھ کو دے ڈال “ یہ کفلھا زکریا کی طرح ہے بمعنی ضمھا ” اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے ۔ داود علیہ السلام نے کہا کہ اس نے تیری دنبی اور اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کرکے واقعی تجھ پر ظلم کیا اور اکثر ساجھی یوں ہی ایک دوسرے کے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں “ ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” انمافتناہ “ تک ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( فتناہ کے معنی ہیں ) ہم نے ان کا امتحان کیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کی قرات تاءکی تشدید کے ساتھ ” فتناہ “ کیا کرتے تھے ” سو انہوں نے اپنے پروردگار کے سامنے توبہ کی اور وہ جھک پڑے اور رجوع ہوئے ۔ “ تشریح :بعض نے کہا حضرت داؤد ؑ نے ایک کم سوبیو یاں رکھ کر پھر کسی کی حسین بیوی دیکھی۔ ان کے دل میں اس عورت کو حاصل کرنے کا خیال آیا۔ اللہ پاک نے اس خیا ل پر بھی ان کو ملامت کی اور دو فرشتوں کو مدعی اور مدعا علیہ بنا کر انہیں سے فیصلہ کرایا جو حق تھا۔ پہلے توحضرت داؤد کو خیال نہ آیا ، پھر سمجھ گئے کہ یہ سب میرے ہی حسب حال ہے۔ اس وقت خوف خدا سے رؤے اور استغفار کیا۔ قسطلانی نے کہا کہ یہ جو بعض مفسرین نے داستان لکھی ہے کہ حضرت داؤد ؑ ایک عورت کے بال کھلے دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے خاوند کو قتل کرا دیا ، یہ سب جھوٹ ہے۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ جو کوئی یہ قصہ حضرت داؤد ؑ کا نام لے کر بیان کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا۔
3443.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ان سے حضرت مجاہد ؓ نے پوچھا: کیا ہم سورہ ص میں سجدہ تلاوت کریں؟ تو انھوں نے ﴿وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ﴾ سے لے کر ﴿فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ تک آیات تلاوت کیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پھر فرمایا: تمہارے نبی کریم ﷺ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں پہلے انبیاء ؑ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت داؤد ؑ نے اس وقت سجدہ کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سورت میں سجدہ کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4807) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓنے خود اس سورت میں سجدہ کیا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4806) یعنی رسول اللہ ﷺنے حضرت داؤد ؑ کی موافقت کے لیے سجدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کی توبہ قبول کی تو انھوں نےشکرانے کے طور پر سجدہ کیا اور ہم بھی شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ رسولوں کی اقتدا کرنے کامطلب یہ ہے کہ عقائد و اصول میں تمام انبیائے کرام ؑ برابرہیں، البتہ فروعات میں قدرے اختلاف ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3291
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3421
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3421
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3421
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
آیات کا ترجمہ حسب ذیل ہے:"(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !) جو کچھ یہ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کیجئے اور ہمارے بندے داود کو یاد کیجئے جو صاحب قوت تھا،بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔بے شک ہم نے پہاڑ اس کےتابع کردیے تھے جبکہ وہ(اس کے ساتھ) صبح وشام تسبیح کرتے رہتے تھے۔اور پرندے بھی(تابع کردیے تھے) اکھٹے کیے ہوئے ،سب اس کے مطیع وفرماں بردارتھے۔اور ہم نے اس کی بادشاہی مستحکم کردی تھی،اور ہم نے اسے حکمت اورفیصلہ کن بات(کی صلاحیت) دی تھی۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد جو الفاظ ذکر کیے ہیں وہ ایسی آیات میں ہیں جن کا ایک مقدمے سے تعلق ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کے حضور پیش ہوا۔اس کی نوعیت یوں معلوم ہوتی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے ایک فوجی افسر کی بیوی کے متعلق سن لیا کہ وہ اچھی عادات اور بہترین خصائل کی مالکہ ہے انھیں دل میں خیال آگیا ہوگا کہ اگر یہ عورت میرے نکاح میں ہوتی تو کیا اچھا ہوتا،بس اس خیال کا آناتھا کہ اللہ کی طرف سےگرفت ہوگئی۔یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نناوے بیویاں تھی۔مقدمہ اس طرح پیش ہوا کہ مدعی نے کہا:یہ میرا بھائی ہے۔اس کےپاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے۔وہ میری دنبی پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔مدعی کا بیان سننے کے بعد جب مدعا علیہ خاموش رہا اور اس نے مدعی کے بیان پر کوئی تبصرہ نہ کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے سمجھا کہ مقدمے کی نوعیت وہی ہے جو مدعی نے بیان کی ہے،توآپ نے فرمایا:واقعی مدعا علیہ نے سوال کرکے تم پر ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کیا ہے۔اس کے فوراً بعدحضرت داؤد علیہ السلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور اللہ تعالیٰ سے اس غلطی پر استغفار کیا۔اگرچہ خیالات کا آنا عام انسان کے لیے قابل گرفت نہیں مگر انبیاء علیہ السلام کا مقام اور ہے۔انھیں چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر فوراً تنبیہ کی جاتی ہے۔واقعہ اسی قدر ہے جو ہم نے بیان کردیا ہے لیکن اسرائیلی روایات میں بہت لغو اور شرمناک باتیں مذکور ہیں جنھیں ہمارے مفسرین نے بھی ذکر کردیاہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام مکان کی چھت پر چڑھے تو ایک عورت کے بال کھلے دیکھ کر اس پر عاشق ہوگئے،پھر اس کے خاوند کو قتل کرادیا۔ان روایات میں حضرات انبیاء علیہ السلام کی عصمت کو داغدار کیا گیا ہے۔واللہ اعلم۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد وفصل الخطاب تک ( یعنی فیصلہ کرنے والی تقریر ہم نے انہیں عطا کی تھی ) مجاہد نے کہا کہ فصل الخطاب سے مراد فیصلے کی سوجھ بوجھ ہے ۔ والاتشططیعنی بے انصافی نہ کر اور ہمیں سیدھی راہ بتا‘ یہ شخص میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے نعجۃ ( دنبیاں ) ہیں “ ۔ عورت کے لئے بھی نعجۃکا لفظ استعمال ہوتا ہے اورنعجۃ بکری کو بھی کہتے ہیں ” اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے‘ سویہ کہتا ہے وہ بھی مجھ کو دے ڈال “ یہ کفلھا زکریا کی طرح ہے بمعنی ضمھا ” اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے ۔ داود علیہ السلام نے کہا کہ اس نے تیری دنبی اور اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کرکے واقعی تجھ پر ظلم کیا اور اکثر ساجھی یوں ہی ایک دوسرے کے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں “ ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” انمافتناہ “ تک ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( فتناہ کے معنی ہیں ) ہم نے ان کا امتحان کیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کی قرات تاءکی تشدید کے ساتھ ” فتناہ “ کیا کرتے تھے ” سو انہوں نے اپنے پروردگار کے سامنے توبہ کی اور وہ جھک پڑے اور رجوع ہوئے ۔ “ تشریح :بعض نے کہا حضرت داؤد ؑ نے ایک کم سوبیو یاں رکھ کر پھر کسی کی حسین بیوی دیکھی۔ ان کے دل میں اس عورت کو حاصل کرنے کا خیال آیا۔ اللہ پاک نے اس خیا ل پر بھی ان کو ملامت کی اور دو فرشتوں کو مدعی اور مدعا علیہ بنا کر انہیں سے فیصلہ کرایا جو حق تھا۔ پہلے توحضرت داؤد کو خیال نہ آیا ، پھر سمجھ گئے کہ یہ سب میرے ہی حسب حال ہے۔ اس وقت خوف خدا سے رؤے اور استغفار کیا۔ قسطلانی نے کہا کہ یہ جو بعض مفسرین نے داستان لکھی ہے کہ حضرت داؤد ؑ ایک عورت کے بال کھلے دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے خاوند کو قتل کرا دیا ، یہ سب جھوٹ ہے۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ جو کوئی یہ قصہ حضرت داؤد ؑ کا نام لے کر بیان کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ان سے حضرت مجاہد ؓ نے پوچھا: کیا ہم سورہ ص میں سجدہ تلاوت کریں؟ تو انھوں نے ﴿وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ﴾ سے لے کر ﴿فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ تک آیات تلاوت کیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پھر فرمایا: تمہارے نبی کریم ﷺ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں پہلے انبیاء ؑ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت داؤد ؑ نے اس وقت سجدہ کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سورت میں سجدہ کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4807) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓنے خود اس سورت میں سجدہ کیا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4806) یعنی رسول اللہ ﷺنے حضرت داؤد ؑ کی موافقت کے لیے سجدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کی توبہ قبول کی تو انھوں نےشکرانے کے طور پر سجدہ کیا اور ہم بھی شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ رسولوں کی اقتدا کرنے کامطلب یہ ہے کہ عقائد و اصول میں تمام انبیائے کرام ؑ برابرہیں، البتہ فروعات میں قدرے اختلاف ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
امام مجاہد نے کہا: فَصْلَ الْخِطَابِ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرمائی تھی وَلَا تُشْطِطْ اسراف نہ کیجئے۔ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ ہمیں سیدھی راہ بتائیے۔ إِنَّ هَـٰذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ یہ میرا بھائی ہے۔ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں۔ عورت کو بھی نَعْجَةٌ کہا جاتا ہے۔ اور نَعْجَةٌ بکری کو بھی کہتے ہیں۔ وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ اب مجھے کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دےدے۔ "(یہ) وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ کی طرح ہے بمعنیضمها یعنی زکریا علیہ السلام نے مریم علیہ السلام کو اپنے ساتھ ملا لیا وعزني کے معنی ہیں: مجھے دباتا ہے۔ مجھ سے زیادہ عزت والا ہوگیا۔ اعزرته میں نے اسے غالب کردیا۔ " في الْخِطَابِ بات چیت کرنے میں۔ "انھوں نے کہا: تیری ایک دنبی کو اپنی نناوے دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوال کرکے اس نے تجھ پر ظلم کیا ہے۔ بے شک اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں الْخُلَطَاءِ کے معنی ہیں: شرکاء۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے أَنَّمَا فَتَنَّاهُ کے معنی کیے ہیں: ہم نے اس کا امتحان لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے تا کی تشدید سے پڑھا ہے تو انھوں نے ا پنے رب سے معافی مانگی، رکوع کر تے ہوئے نیچے گر پڑے اور اللہ کی طرف خوب متوجہ ہوئے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمدبن سلام نےبیان کیا، ہم سے سہل بن یوسف نےبیان کیا، کہا کہ میں نے عوام سےسنا، ان سے مجاہد نےبیان کیا کہ میں نےحضر ت ابن عباس ؓ نے پوچھا، کیا میں سورۂ ص میں سجدہ کیاکروں؟ تو انہوں نے آیت ﴿وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ﴾ کی تلاوت کی ﴿فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ تک۔ نیز انہوں نے کہاکہ تمہارے نبی ﷺ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں انبیاء ؑ کی اقتداء کاحکم تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نےاس حدیث کوکتاب التفسیر میں بھی نکالا ہے۔ اس میں یہ ہےکہ آپ نےسورۂ ص میں سجدہ کیا۔ ہمارے رسول کریم ﷺ کوجو اگلے رسولوں کی اقتداء کرنے کاحکم ہوا، اس کامطلب یہ ہے کہ عقائد و اصول سب پیغمبروں کے ایک ہیں گو فروعات میں کسی قدر اختلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid (RA): I asked Ibn 'Abbas (RA), "Should we perform a prostration on reciting Surat-Sad?" He recited (the Sura) including: 'And among his progeny, David, Solomon..(up to)...so follow their guidance (6.84-91) And then he said, "Your Prophet (ﷺ) is amongst those people who have been ordered to follow them (i.e. the preceding apostles).