قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل للنبیﷺ

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ{وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: إِلَى قَوْلِهِ: {وَفَصْلَ الخِطَابِ} [ص: 20]، قَالَ مُجَاهِدٌ: " الفَهْمُ فِي القَضَاءِ. {وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الخَصْمِ} [ص: 21] إِلَى {وَلاَ تُشْطِطْ} [ص: 22]: لاَ تُسْرِفْ، {وَاهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ الصِّرَاطِ، إِنَّ هَذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً} [ص: 23] يُقَالُ لِلْمَرْأَةِ نَعْجَةٌ، وَيُقَالُ لَهَا أَيْضًا شَاةٌ. (وَلِي نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا) مِثْلُ (وَكَفَلَهَا زَكَرِيَّاءُ) ضَمَّهَا، {وَعَزَّنِي} [ص: 23] غَلَبَنِي، صَارَ أَعَزَّ مِنِّي، أَعْزَزْتُهُ جَعَلْتُهُ عَزِيزًا {فِي الخِطَابِ} [ص: 23] يُقَالُ: المُحَاوَرَةُ، {قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ، وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الخُلَطَاءِ} [ص: 24] الشُّرَكَاءِ، {لَيَبْغِي} [ص: 24]- إِلَى قَوْلِهِ - {أَنَّمَا فَتَنَّاهُ} [ص: 24] " قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «اخْتَبَرْنَاهُ» وَقَرَأَ عُمَرُ فَتَّنَّاهُ، بِتَشْدِيدِ التَّاءِ {فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ} [ص: 24]‏

3443 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَوَّامَ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ أَنَسْجُدُ فِي ص فَقَرَأَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ حَتَّى أَتَى فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ أُمِرَ أَنْ يَقْتَدِيَ بِهِمْ

صحیح بخاری:

کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب : اللہ پاک کا سورۃ ص میں فرمانا‘ ہمارے زوردار بندے داؤد کا ذکر کر‘ وہ خدا کی طرف رجوع ہونے والا تھا ۔

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

اللہ تعالیٰ کے ارشاد وفصل الخطاب تک ( یعنی فیصلہ کرنے والی تقریر ہم نے انہیں عطا کی تھی ) مجاہد نے کہا کہ فصل الخطاب سے مراد فیصلے کی سوجھ بوجھ ہے ۔ والاتشططیعنی بے انصافی نہ کر اور ہمیں سیدھی راہ بتا‘ یہ شخص میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے نعجۃ ( دنبیاں ) ہیں “ ۔ عورت کے لئے بھی نعجۃکا لفظ استعمال ہوتا ہے اورنعجۃ بکری کو بھی کہتے ہیں ” اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے‘ سویہ کہتا ہے وہ بھی مجھ کو دے ڈال “ یہ کفلھا زکریا کی طرح ہے بمعنی ضمھا ” اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے ۔ داود علیہ السلام نے کہا کہ اس نے تیری دنبی اور اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کرکے واقعی تجھ پر ظلم کیا اور اکثر ساجھی یوں ہی ایک دوسرے کے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں “ ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” انمافتناہ “ تک ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( فتناہ کے معنی ہیں ) ہم نے ان کا امتحان کیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کی قرات تاءکی تشدید کے ساتھ ” فتناہ “ کیا کرتے تھے ” سو انہوں نے اپنے پروردگار کے سامنے توبہ کی اور وہ جھک پڑے اور رجوع ہوئے ۔ “ تشریح :بعض نے کہا حضرت داؤد ؑ نے ایک کم سوبیو یاں رکھ کر پھر کسی کی حسین بیوی دیکھی۔ ان کے دل میں اس عورت کو حاصل کرنے کا خیال آیا۔ اللہ پاک نے اس خیا ل پر بھی ان کو ملامت کی اور دو فرشتوں کو مدعی اور مدعا علیہ بنا کر انہیں سے فیصلہ کرایا جو حق تھا۔ پہلے توحضرت داؤد کو خیال نہ آیا ، پھر سمجھ گئے کہ یہ سب میرے ہی حسب حال ہے۔ اس وقت خوف خدا سے رؤے اور استغفار کیا۔ قسطلانی نے کہا کہ یہ جو بعض مفسرین نے داستان لکھی ہے کہ حضرت داؤد ؑ ایک عورت کے بال کھلے دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے خاوند کو قتل کرا دیا ، یہ سب جھوٹ ہے۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ جو کوئی یہ قصہ حضرت داؤد ؑ کا نام لے کر بیان کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا۔

3443.   حضرت ابن عباس  ؓسے روایت ہے کہ ان سے حضرت مجاہد ؓ نے پوچھا: کیا ہم سورہ ص میں سجدہ تلاوت کریں؟ تو انھوں نے ﴿وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ﴾ سے لے کر ﴿فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ تک آیات تلاوت کیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پھر فرمایا: تمہارے نبی کریم ﷺ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں پہلے انبیاء ؑ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔