صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
39. باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ۔اورہم نے داؤد کو سلیمان ( بیٹا ) عطا فرمایا ، وہ بہت اچھا بندہ تھا ، بہت ہی رجوع ہونے والا اورتوجہ کر نے والا ۔
Sahi-Bukhari
60. Prophets
39. Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And to Dawud, We gave Sulaiman (for a son). How excellent (a) slave he was ever oft-returning in repentance (to us)" (38.30)
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ۔اورہم نے داؤد کو سلیمان ( بیٹا ) عطا فرمایا ، وہ بہت اچھا بندہ تھا ، بہت ہی رجوع ہونے والا اورتوجہ کر نے والا ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And to Dawud, We gave Sulaiman (for a son). How excellent (a) slave he was ever oft-returning in repentance (to us)" (38.30))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سلیمان کا یہ کہنا کہ مالک میرے مجھ کو ایسی بادشاہت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہوا ۔ اورسورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس علم کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے ، ، اور سورۃ سبامیں فرمایا ” ( ہم نے ) سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو ( تابع ) کر دیاکہ اس کی صبح کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور اس کی شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور قطر یعنی ہم نے ان کے لئے لوہے کا چشمہ بہا دیا ( واسلنالہ عین القطر بمعنی ) واذبنالہ عین الحدید ہے ” اور جنات میں کچھ وہ تھے جو ان کے آگے ان کے پروردگار کے حکم سے خوب کام کرتے تھے ، ، آخر آیت من محاریب تک ۔ مجاہد نے کہا کہمحاریب وہ عمارتیں جو محلوں سے کم ہوں تماثیل تصویریں اور لگن اورجواب یعنی حوض جیسے اونٹوں کے لئے حوض ہوا کر تے ہیں ” اور ( بڑی بڑی ) جمی ہوئی دیگیں ، ، آیت الشکور تک ۔ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کردیا تو کسی چیز نے ان کی موت کا پتہ نہ دیا بجزایک زمین کے کیڑے ( دیمک ) کے کہ وہ ان کے عصا کو کھا تا رہا ، سو جب وہ گر پڑے تب جنات نے جانا کہ وہ مر گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان المہین ، ، تک ” سلیمان علیہ السّلام کہنے لگے کہ میں اس مال کی محبت میں پروردگار کی یاد سے غافل ہو گیا ، ، فطفق مسحا الخیعنی اس نے گھوڑوں کی ایال اوراگاڑی پچھاڑی کی رسیوں پر ہا تھ پھیرنا شروع کر دیا ۔ الاصفاد بمعنی الوثاق بیڑیاں زنجیریں ۔ مجاہد نے کہا کہ الصافنات ، صفن الفرسسے مشتق ہے ، اس وقت بولتے ہیں جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر کھر کی نوک پر کھڑا ہو جائے ، ، الجیاد یعنی دوڑنے میں تیز ۔ جسدا بمعنی شیطان ، ( جو حضرت سلیمان علیہ السّلام کی انگوٹھی پہن کر ان کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔ ) رخاءنرمی سے ، خوشی سے ۔ حیث اصاب یعنی جہاں وہ جانا چاہتے فامنن اعط کے معنی میں ہے ، جس کو چاہے دے بغیر حساب بغیر کسی تکلیف کے ، بے حرج ۔تشریح : فطفق الخ کی یہ تفسیر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کی ہے وہ گھوڑوں کا ملاحظہ فرمانے لگے۔ اکثر مفسرین نے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کے پاؤں اور گردنیں تلوار سے کاٹنے لگے۔ چونکہ ان کے دیکھنے میں عصر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔
3445.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’آج رات ایک سرکش جن پر مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نےاسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی: ’’اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ "تو میں نے اسے ذلیل وخوار کرکے چھوڑ دیا۔‘‘ عِفْرِيتٌ کے معنی شرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانية ہے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت سلیمان ؑ کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کردیا ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کی دعادرج ذیل آیت میں ہے: ’’میرے رب! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔‘‘ (ص:35) 2۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلیمان ؑ کی رعایت کرتے ہوئے اس سرکش جن کو چھوڑدیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جنات کو کام میں لانا حضرت سلیمان ؑ کی خصوصیت ہو۔ قرآن کریم کی صراحت ہے کہ ہم جنوں کو نہیں دیکھ سکتے وہ ہمیں دیکھتے ہیں۔ (الأعراف:27) واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے تمام جنوں کو تابع کردیا تھا، وہ ان سے مختلف کام لیتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3293
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3423
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3423
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3423
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت لغوی تشریح کے لیے جن آیات یاالفاظ کا انتخاب کیا ہے،ان میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزات اور واقعات کا ذکر ہے جو مختصر طور پر حسب ذیل ہیں:الف۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخرکردیاگیاتھا۔اس ہوا کی قرآن کریم میں دوصفات ذکر کی گئی ہیں۔(عَاصِفَةً) (الانبیاء 21:81)"تیز وتند ہوا"۔اس سے یہ کام لیا جاتا کہ جب اپنے تخت کو تیزی سے اڑانا مقصود ہوتاتاکہ منزل مقصود پر جلدی پہنچ جائیں تو تیز ہوا کو کام میں لایا جاتا۔اس کی رفتار اس قدر تیز ہوتی کہ مہینوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کرلیا جاتا۔(سبا:12:34)(رُخَاءً)(ص:38:36) "نرم ہوا" جب تخت کو نیچے اُتارنا ہوتا تو نرم ہوا کام آتی،نیز لشکروں کے لیے جو وسیع پیمانے پر کھانا تیار ہوتا تھا اسے تازہ رکھنے کے لیے بھی نرم اور خوشگوار ہوا کام آتی تھی۔ب۔سرکش جنوں کو ان کے تابع کردیا گیاتھا۔وہ سمندروں سے موتی اور جواہرات نکالنے کے لیے غوطے لگاتے تھے،پھر انھیں اور مملکت چلانے کے لیے استعمال کیاجاتا،(الانبیاء:21/82)نیز جنات بڑے بڑے محلات ،قلعے اور مساجد تعمیر کرتے تھے۔(سبا:13/34) ان سے اور کام بھی لیے جاتے تھے(الانبیاء :21/82)ج۔ان کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا ایک چشمہ جاری کر دیاگیا تھا۔جنات اسے مختلف سانپوں میں ڈال کر بڑے بڑے برتن،زمین پر جمی ہوئی دیگیں اور حوض نما لگن تیار کرتے تھے۔(سبا:34/12۔13)بیت المقدس (ہیکل سلیمانی) کی تعمیر کا وقت قریب آیا تو ابھی خاصا کام باقی تھا لیکن فرشتے نے کھڑے کھڑے ہی سلیمان علیہ السلام کی روح قبض کرلی۔آپ لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے اور جنات مسلسل کام میں لگے رہے۔جب تعمیر مکمل ہوگئی تولاٹھی کو بھی دیمک نے چاٹ کر ختم کردیا تھا۔جب لاٹھی ٹوٹی تو آپ کی میت بھی گرپڑی۔اس واقعے کی تفصیل کے لیے سورہ سبا آیت:14 کی تفسیر دیکھی جائے۔بڑے بڑے واقعات کی تفصیل حسب ذیل ہے:الف۔آپ نے جہاد کے لیے چاق چوبند گھوڑوں کا دستہ تیار کررکھاتھا۔آپ ان کی بہت دیکھ بھال کرتے تھے۔ایک دفعہ وہ گھوڑے آپ کے پاس لائے گئے حتی کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے یا سورج غروب ہوگیا۔اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں تفصیل کے لیے سورہ ص کی آیات:31،32، 33 کامطالعہ کریں۔ب۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت پر ایک بے جان حسد ڈال کر انھیں آزمائش میں ڈالا گیا۔اس سے مراد ادھورا بچہ ہے یا کوئی جن۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل واقعہ ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس جن کا نام آصف تھا لیکن ہمیں اس واقعے کی صحت کے متعلق تامل ہے۔اگرچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جسد کے معنی شیطان کیا ہے۔تفصیل کے لیے سورہ ص آیت:34 کی تفسیر دیکھیں۔ج۔آپ کے دور حکومت میں شیاطین جادوسیکھتے سکھاتے تھے۔یہودی ان طلسمات وعملیات کے پیچھے پڑ گئے تھے۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس مکروہ دھندے کا علم ہوا تو جادوگروں کی تمام کتابیں داخل دفتر کردیں۔اس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے سورہ بقرہ آیت:102 کا مطالعہ کیا جائے۔مندرجہ ذیل واقعات کی طرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی اشارہ تک نہیں کیا،حالانکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے۔قصہ نمل،(النمل 11/27) قصہ ہدہد،،(النمل 20۔23/27)قصہ ملکہ سبا۔،(النمل 29۔44/27)
سلیمان کا یہ کہنا کہ مالک میرے مجھ کو ایسی بادشاہت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہوا ۔ اورسورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس علم کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے ، ، اور سورۃ سبامیں فرمایا ” ( ہم نے ) سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو ( تابع ) کر دیاکہ اس کی صبح کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور اس کی شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور قطر یعنی ہم نے ان کے لئے لوہے کا چشمہ بہا دیا ( واسلنالہ عین القطر بمعنی ) واذبنالہ عین الحدید ہے ” اور جنات میں کچھ وہ تھے جو ان کے آگے ان کے پروردگار کے حکم سے خوب کام کرتے تھے ، ، آخر آیت من محاریب تک ۔ مجاہد نے کہا کہمحاریب وہ عمارتیں جو محلوں سے کم ہوں تماثیل تصویریں اور لگن اورجواب یعنی حوض جیسے اونٹوں کے لئے حوض ہوا کر تے ہیں ” اور ( بڑی بڑی ) جمی ہوئی دیگیں ، ، آیت الشکور تک ۔ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کردیا تو کسی چیز نے ان کی موت کا پتہ نہ دیا بجزایک زمین کے کیڑے ( دیمک ) کے کہ وہ ان کے عصا کو کھا تا رہا ، سو جب وہ گر پڑے تب جنات نے جانا کہ وہ مر گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان المہین ، ، تک ” سلیمان علیہ السّلام کہنے لگے کہ میں اس مال کی محبت میں پروردگار کی یاد سے غافل ہو گیا ، ، فطفق مسحا الخیعنی اس نے گھوڑوں کی ایال اوراگاڑی پچھاڑی کی رسیوں پر ہا تھ پھیرنا شروع کر دیا ۔ الاصفاد بمعنی الوثاق بیڑیاں زنجیریں ۔ مجاہد نے کہا کہ الصافنات ، صفن الفرسسے مشتق ہے ، اس وقت بولتے ہیں جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر کھر کی نوک پر کھڑا ہو جائے ، ، الجیاد یعنی دوڑنے میں تیز ۔ جسدا بمعنی شیطان ، ( جو حضرت سلیمان علیہ السّلام کی انگوٹھی پہن کر ان کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔ ) رخاءنرمی سے ، خوشی سے ۔ حیث اصاب یعنی جہاں وہ جانا چاہتے فامنن اعط کے معنی میں ہے ، جس کو چاہے دے بغیر حساب بغیر کسی تکلیف کے ، بے حرج ۔تشریح : فطفق الخ کی یہ تفسیر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کی ہے وہ گھوڑوں کا ملاحظہ فرمانے لگے۔ اکثر مفسرین نے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کے پاؤں اور گردنیں تلوار سے کاٹنے لگے۔ چونکہ ان کے دیکھنے میں عصر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’آج رات ایک سرکش جن پر مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نےاسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی: ’’اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ "تو میں نے اسے ذلیل وخوار کرکے چھوڑ دیا۔‘‘ عِفْرِيتٌ کے معنی شرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانية ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حضرت سلیمان ؑ کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کردیا ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کی دعادرج ذیل آیت میں ہے: ’’میرے رب! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔‘‘ (ص:35) 2۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلیمان ؑ کی رعایت کرتے ہوئے اس سرکش جن کو چھوڑدیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جنات کو کام میں لانا حضرت سلیمان ؑ کی خصوصیت ہو۔ قرآن کریم کی صراحت ہے کہ ہم جنوں کو نہیں دیکھ سکتے وہ ہمیں دیکھتے ہیں۔ (الأعراف:27) واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے تمام جنوں کو تابع کردیا تھا، وہ ان سے مختلف کام لیتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
أَوَّابٌ کے معنی ہیں: اللہ کی طرف رجوع اور توجہ کرنے والا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ کہنا: "(اے میرے رب!) مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ "نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان لوگوں نے اس چیز کی پیروی کی جسے شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت میں پڑھا کرتے تھے۔ "نیز فرمایا: " ہم نے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا تھا۔ وہ صبح کے وقت ایک ماہ کی مسافت اور شام کو ایک ماہ کی مسافت طے کرلیتی تھی۔ ہم نے ان کے لیے لوہے کا چشمہ بہادیا تھا۔ اور کچھ جن بھی اپنے رب کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے۔ اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرکشی کرتا تو ہم اسے خوب بھڑکتی آگ کے عذاب کا مزہ چکھاتے۔ وہ(جن) اس(سلیمان علیہ السلام ) کے لیے بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا، بڑی بڑی عالی شان عمارتیں۔ "مجاہد نے کہا: مَّحَارِيبَ سے مراد وہ عمارتیں ہیں جو محلات سے کم ہوں وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ مجسمے اور بڑے بڑے حوض، لگن کی طرح، یعنی اس سےمراد بڑے بڑے حوض ہیں جہاں اونٹ پانی پیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس کے معنی ہیں: زمین کا وہ حصہ جو حوض کی طرح ہو۔
نیز فرمایا: "اور ایک جگہ پر جمی(ٹکی) ہوئی دیگیں۔ اے آل داؤد علیہ السلام !شکر کے طور پر عمل کرو کیونکہ میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ کیا تو گھن(دیمک) کے کیڑے کے علاوہ کسی چیز نے جنوں کو سلیمان کی موت کا پتہ نہ دیا جو ان کے عصا کو کھائے جارہاتھا، پھر جب وہ(سلیمان علیہ السلام ) گر پڑے تو جنوں پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے تو ایسے ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔ دَابَّةُ الْأَرْضِ سے مراد لکڑی کاکیڑا، یعنی دیمک وغیرہ۔ مِنسَأَتَهُ ۖ سے مرادان کی لاٹھی ہے۔
(نیز فرمایا: )"میں نے اس مال کو اپنے رب کی یاد کے مقابلے میں پسند کیا ہے (حتیٰ کہ وہ دستہ سامنے سے اوجھل ہوگیا۔ آپ نے کہا: ان کو میرے پاس واپس لاؤ)تو آپ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ "یعنی حضرت سلیمان گھوڑوں کی گردنوں اور ایڑیوں کو چھوتے تھے۔ الْأَصْفَادِ سے مراد بندھن ہیں۔ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: الصَّافِنَاتُ کا لفظ صنفن الفرس سے مشتق ہے۔ جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر سم کی نوک پر کھڑا ہو۔ الْجِيَادُ کے معنی تیز رفتار جَسَدًا سے مرادشیطان ہے۔ رُخَاءً کے معنی نرم کے ساتھ حَيْثُ أَصَابَ جہاں آپ چاہتے فَامْنُنْ کے معنی کسی پر احسان کرکے کچھ دو بِغَيْرِ حِسَابٍ کسی قسم کامواخذہ نہیں ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمدبن بشار نےبیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سےمحمد بن جعفر نےبیان کیا، ان سےشعبہ نےبیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ نے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا، ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آگیا تاکہ میری خراب کردےلیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر قدرت دے دی اورمیں نے اسے بکڑلیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کےکسی ستون کےباندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان کی دعایاد آگئی کہ ’’یا اللہ ! مجھے ایسی سلطنت دےجو میرے سوا کسی کومیسر نہ ہو۔،، اس لیے میں نے اسے نامرادواپس کر دیا۔ عفریت سرکش کےمعنی میں ہے، خواہ انسانوں میں ہویا جنوں میں سے
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت سلیمان کا ذکر ہے، باب سےیہی مناسبت ہے۔ حضرت سلیمان کی دعا آیت ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾(ص :35) میں مذکورہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A strong demon from the Jinns came to me yesterday suddenly, so as to spoil my prayer, but Allah enabled me to overpower him, and so I caught him and intended to tie him to one of the pillars of the Mosque so that all of you might see him, but I remembered the invocation of my brother Solomon: 'And grant me a kingdom such as shall not belong to any other after me.' (38.35) so I let him go cursed."