تشریح:
1۔ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہواکہ قیامت کے قریب جو یہود نصاریٰ ہوں گے حضرت عیسیٰ ؑ ان کے زمانے میں نازل ہوں گے۔ اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ صلیب توڑنے سے مراد نصرانیت کو ختم کرنا ہے۔ ساری دنیا میں صرف ایک ہی دین ، یعنی اسلام نافذ ہوگا۔ حضرت عیسیٰ ؑ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کے نازل ہونے سے پہلے جزیہ (ٹیکس) باقی رہے گا کیونکہ ہم مال کے محتاج ہیں جبکہ ان کے نازل ہونے کے بعد اس قدر مال کی بہتات ہوجائے گی کہ جذیے وغیرہ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس لیے اسے ختم کردیا جائے گا، نیز جب اہل کتاب مسلمان ہوجائیں گے تو جزیہ کن لوگوں سے لینا ہے۔ عدل وانصاف کے باعث برکات نازل ہوں گی اور خیرات کی بارشیں ہوں گی۔ اس وقت زمین اپنے تمام خزانے باہر نکال دے گی۔ کیونکہ اس وقت کوئی بھی مال ودولت کی طرف خیال نہیں کرےگا، اس لیے اس زمانے میں اللہ کاقرب مال خرچ کرنے سے نہیں بلکہ عبادات بدنیہ سے ملے گا، حتی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیها سے بڑھ کرہوگا۔ 2۔ بہرحال قرب قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان سے نازل ہونے پر اُمت اسلامیہ کا اجماع ہے اور اس سلسلے میں احادیث حد تواتر کو پہنچتی ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔