تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔ اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (فتح الباري:593/1) 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔ اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔ (إعلام الحدیث للخطابي:345/1)