صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
40. باب : حضرت لقمان کا بیان اور سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔” اور بیشک دی تھی ہم نے لقمان کو حکمت یعنی یہ کہا کہ اللہ کا شکر ادا کر
باب : حضرت لقمان کا بیان اور سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔” اور بیشک دی تھی ہم نے لقمان کو حکمت یعنی یہ کہا کہ اللہ کا شکر ادا کر
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And indeed We bestowed upon Luqman Al-Hikmah...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آیت{إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ}تک۔ ولا تصعر یعنی اپنا چہرہ نہ پھیر۔حضرت لقمان ؑاپنے زمانہ کے داناحکیم تھے ، بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے حضرت داؤدؑ کا زمانہ پایا اور ان سے فیض بھی حاصل کیا ، جمہور کا قول یہی ہے کہ یہی ایک داناحکیم تھے بنی نہ تھے۔ بعض لوگوں نے ان کو نبی کہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
3451.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’جولوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔ ۔ ۔ ‘‘ تو مسلمانوں(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین) پر بہت شاق گزری اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیاہو؟ آپ نے فرمایا: ’’اس سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ شرک مراد ہے۔ کیا تم نے حضرت لقمان کا قول نہیں سناجو انھوں نے اپنے لخت جگر کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: اے پیارے بیٹے! شرک نہ کرنا کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت لقمان ؑ عرب کے ایک دانا اسر صاحب بصیرت انسان تھے۔ شعرائے عرب کے کلام میں ان کا ذکر ملتاہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتاہے کہ انھوں نے حضرت داؤد ؑ کا زمانہ پایا اور ان سے فیض بھی حاصل کیا۔2۔ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ نبی تھے یا عام صاحب بصیرت انسان۔ جمہور کا کہنا ہے کہ وہ ایک دانا حکیم تھے، نبی نہیں تھے۔ امام بخاری ؒ کے اختیار کردہ اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمہور کے فیصلے سے اختلاف کررہے ہیں اور وہ انھیں حضرات انبیائے کرام ؑ میں شمار کرتے ہیں کیونکہ ایمان کی دعوت اور شرک سے ممانعت صرف نبی ہی کرسکتاہے۔ لیکن یہ کوئی نبوت کی اتنی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ ایمان کی دعوت اور شرک سے ممانعت، ایک نبی کاامتی بھی یہ فریضہ ادا کرسکتاہے۔ 3۔ بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے لفظ "ظلم" کو عام معنوں میں لیاجو شرک اور غیر شرک سب کو شامل ہے لیکن آیت کریمہ سے ظلم کوشرک کے ساتھ خاص کردیاگیا اور بطور دلیل ایک آیت کو بھی پیش کیاگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3299
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3429
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3429
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3429
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
آیات کاترجمہ مندرجہ ذیل ہے:"اور بلاشبہ ہم نے لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ کا شکر کر،اور جوکوئی لشکر کرے تو یقیناً وہ اپنی ہی ذات کے لیے شکر کرتا ہے،اور جس نے ناشکری کی تو بلاشبہ اللہ بے پروا ہے،تعریف کیا ہوا ہے۔اور (یاد کریں) جب لقمان علیہ السلام نے ا پنے بیٹے سے کہا تھا،جبکہ وہ اسے نصیحت کررہاتھا:اے میرے پیارے بیٹے! تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا،بے شک شرک تو بہت بڑا ظلم ہے۔"( لقمٰن 31/12۔13)ان آیات کے بعدحضرت لقمان علیہ السلام کی حکمت بھری نصیحتوں کاذکر ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ سورہ لقمان کی آیت :19 تک کا ضرور مطالعہ کریں۔
آیت{إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ}تک۔ ولا تصعر یعنی اپنا چہرہ نہ پھیر۔حضرت لقمان ؑاپنے زمانہ کے داناحکیم تھے ، بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے حضرت داؤدؑ کا زمانہ پایا اور ان سے فیض بھی حاصل کیا ، جمہور کا قول یہی ہے کہ یہی ایک داناحکیم تھے بنی نہ تھے۔ بعض لوگوں نے ان کو نبی کہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’جولوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔ ۔ ۔ ‘‘ تو مسلمانوں(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین) پر بہت شاق گزری اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیاہو؟ آپ نے فرمایا: ’’اس سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ شرک مراد ہے۔ کیا تم نے حضرت لقمان کا قول نہیں سناجو انھوں نے اپنے لخت جگر کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: اے پیارے بیٹے! شرک نہ کرنا کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت لقمان ؑ عرب کے ایک دانا اسر صاحب بصیرت انسان تھے۔ شعرائے عرب کے کلام میں ان کا ذکر ملتاہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتاہے کہ انھوں نے حضرت داؤد ؑ کا زمانہ پایا اور ان سے فیض بھی حاصل کیا۔2۔ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ نبی تھے یا عام صاحب بصیرت انسان۔ جمہور کا کہنا ہے کہ وہ ایک دانا حکیم تھے، نبی نہیں تھے۔ امام بخاری ؒ کے اختیار کردہ اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمہور کے فیصلے سے اختلاف کررہے ہیں اور وہ انھیں حضرات انبیائے کرام ؑ میں شمار کرتے ہیں کیونکہ ایمان کی دعوت اور شرک سے ممانعت صرف نبی ہی کرسکتاہے۔ لیکن یہ کوئی نبوت کی اتنی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ ایمان کی دعوت اور شرک سے ممانعت، ایک نبی کاامتی بھی یہ فریضہ ادا کرسکتاہے۔ 3۔ بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے لفظ "ظلم" کو عام معنوں میں لیاجو شرک اور غیر شرک سب کو شامل ہے لیکن آیت کریمہ سے ظلم کوشرک کے ساتھ خاص کردیاگیا اور بطور دلیل ایک آیت کو بھی پیش کیاگیا۔
ترجمۃ الباب:
وَلَا تُصَعِّرْ کے معنی ہیں: روگردانی کرنا
حدیث ترجمہ:
مجھ سےاسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسی بن یونس نےخبردی، کہا ہم سے اعمش ہےبیان کیا، ان سےابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے بیان کی کہ جب آیت ’’جولوگ ایمان لائے اور اپنےایمان کےساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی۔،، نازل ہوئی تومسلمانوں پر بڑا شاق گزرا اور انہوں نے عرض کیاہم میں کون ایسا ہوسکتا ہے جس نے اپنے ایمان کےساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی ہوگی؟ آنحضر ﷺ نےفرمایا کہ اس کایہ مطلب نہیں، ظلم سے مراد آیت میں شرک ہے۔ کیا تم نے نہیں سناکہ حضرت لقمان ؑ نے اپنے بیٹے سےکہا تھااسے نصیحت کرتےہوئے کہ ’’اے بیٹے ! اللہ تعالی کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرا، بےشک شرک بڑاہی ظلم ہے۔،،
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): When the Verse:-- 'Those who believe and mix not their belief with wrong.' was revealed, the Muslims felt it very hard on them and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Who amongst us does not do wrong to himself?" He replied, "The Verse does not mean this. But that (wrong) means to associate others in worship to Allah: Don't you listen to what Luqman said to his son when he was advising him," O my son! Join not others in worship with Allah. Verily joining others in worship with Allah is a great wrong indeed." (31.13)