صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
41. باب : حضرت زکریا ؑ کا بیان ۔اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم میں فرمایا ( یہ ) تیرے پروردگار کے رحمت ( فرمانے ) کا تذکرہ ہے اپنے بندے زکریا پر
Sahi-Bukhari
60. Prophets
41. Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "(This is) a mention of the mercy of your Lord to His slave Zakariya (Zachariah)"
باب : حضرت زکریا ؑ کا بیان ۔اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم میں فرمایا ( یہ ) تیرے پروردگار کے رحمت ( فرمانے ) کا تذکرہ ہے اپنے بندے زکریا پر
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "(This is) a mention of the mercy of your Lord to His slave Zakariya (Zachariah)")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جب انہوں نے اپنے رب کو آہستہ پکارا ، کہا اے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی ہے ۔ آیت ﴾لم نجعل لہ من قبل سمیا ﴿تک ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رضیا ، مرضیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عتیا بمعنی عصیاہے ۔ عتایعتو سے مشتق ہے ۔ زکریا علیہ السّلام بولے ” اے پروردگار ! میرے یہاں لڑکا کیسے پیدا ہو گا “ آیت ” ثلاث لیال سویا “ تک ۔ ( سویا بمعنی ) صحیحا ہے ۔ پھر وہ اپنی قوم کے روبرو حجرہ میں سے برآمد ہوا اور اشارہ کیا اللہ کی پاکی صبح وشام بیان کیا کرو ۔ فاوحی بمعنی فااشار ہے ۔ اے یحییٰ ! کتاب کو مضبوط پکڑ ” ویوم یبعث حیا “ تک حفیا بمعنی لطیفا ۔ عاقرا ، موئث اور مذکر دونوں کے لئے آتا ہے ۔اسرائیلی نبیوں میں حضرت زکریا کا مقام بہت بلند ہے حضرت مریمؑ کی پرورش ان ہی کی نگرانی میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑھاپے میں ان کو بطور معجزہ حضرت یحییٰ ؑفرزند رشید عطا فرمایا ان آیات میں ان ہی کا ذکر ہے ان آیات کے مشکل الفاظ کی بھی وضاحت یہاں پر کر دی گئی تفصیل کے لئے سورۂ مریم کا مطالعہ کرلیا جائے۔
3452.
حضرت مالک بن صعصعہ ؓسے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین کو شب معراج کا واقعہ بیان فرمایا: ’’جب حضرت جبرئیل ؑ اوپر چڑھے حتیٰ کہ وہ دوسرے آسمان پر آئے، پھر دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پھر پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: حضرت محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انھیں (آپ ﷺ کو) بلایا گیا تھا؟ کہا: جی ہاں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:)پھر جب میں وہاں پہنچا تو حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ ؑ ہیں، آپ انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا۔ پھر ان دونوں نے فرمایا: ’’اے نیک سیرت بھائی اور خوش خصال نبی! خوش آمدید۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت یحییٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔ اسی منابت سے امام بخاری ؒنے اسے بیان کیا ہے۔ 2۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ اورحضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ایشاع بنت حنا ہیں۔ یہ دونوں مادری بہنیں ہیں، اس بنا پر یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ یہ قرابت ہی ان دونوں کے دوسرے آسمان میں اکٹھے رہنے کا سبب بنی ہے۔ حضرت زکریا ؑ نے حضرت مریم ؑ کی کفالت کی تھی، قرابت داری کے علاوہ روحانی تعلق بھی تھا، اس لیے حضرت ذکریا، ان کے لخت جگر حضرت یحییٰ ؑ نیز حضرت مریم ؑ اور ان کے جگرگوشے حضرت عیسیٰ ؑ کا قرآن میں یکجا ذکر آتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3300
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3430
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3430
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3430
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
جب انہوں نے اپنے رب کو آہستہ پکارا ، کہا اے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی ہے ۔ آیت ﴾لم نجعل لہ من قبل سمیا ﴿تک ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رضیا ، مرضیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عتیا بمعنی عصیاہے ۔ عتایعتو سے مشتق ہے ۔ زکریا علیہ السّلام بولے ” اے پروردگار ! میرے یہاں لڑکا کیسے پیدا ہو گا “ آیت ” ثلاث لیال سویا “ تک ۔ ( سویا بمعنی ) صحیحا ہے ۔ پھر وہ اپنی قوم کے روبرو حجرہ میں سے برآمد ہوا اور اشارہ کیا اللہ کی پاکی صبح وشام بیان کیا کرو ۔ فاوحی بمعنی فااشار ہے ۔ اے یحییٰ ! کتاب کو مضبوط پکڑ ” ویوم یبعث حیا “ تک حفیا بمعنی لطیفا ۔ عاقرا ، موئث اور مذکر دونوں کے لئے آتا ہے ۔اسرائیلی نبیوں میں حضرت زکریا کا مقام بہت بلند ہے حضرت مریمؑ کی پرورش ان ہی کی نگرانی میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑھاپے میں ان کو بطور معجزہ حضرت یحییٰ ؑفرزند رشید عطا فرمایا ان آیات میں ان ہی کا ذکر ہے ان آیات کے مشکل الفاظ کی بھی وضاحت یہاں پر کر دی گئی تفصیل کے لئے سورۂ مریم کا مطالعہ کرلیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مالک بن صعصعہ ؓسے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین کو شب معراج کا واقعہ بیان فرمایا: ’’جب حضرت جبرئیل ؑ اوپر چڑھے حتیٰ کہ وہ دوسرے آسمان پر آئے، پھر دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پھر پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: حضرت محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انھیں (آپ ﷺ کو) بلایا گیا تھا؟ کہا: جی ہاں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:)پھر جب میں وہاں پہنچا تو حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ ؑ ہیں، آپ انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا۔ پھر ان دونوں نے فرمایا: ’’اے نیک سیرت بھائی اور خوش خصال نبی! خوش آمدید۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حضرت یحییٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔ اسی منابت سے امام بخاری ؒنے اسے بیان کیا ہے۔ 2۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ اورحضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ایشاع بنت حنا ہیں۔ یہ دونوں مادری بہنیں ہیں، اس بنا پر یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ یہ قرابت ہی ان دونوں کے دوسرے آسمان میں اکٹھے رہنے کا سبب بنی ہے۔ حضرت زکریا ؑ نے حضرت مریم ؑ کی کفالت کی تھی، قرابت داری کے علاوہ روحانی تعلق بھی تھا، اس لیے حضرت ذکریا، ان کے لخت جگر حضرت یحییٰ ؑ نیز حضرت مریم ؑ اور ان کے جگرگوشے حضرت عیسیٰ ؑ کا قرآن میں یکجا ذکر آتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایاسَمِيًّا کے معنی ہیں: مثال۔ کہا جاتا ہے کہ رَضِيًّا کے معنی پسندیدہ اور عِتِيًّا کے معنی نافرمان ہیں عتا يعتو اس کا باب ہے۔(نیز فرمایا: )"اس(حضرت زکریا علیہ السلام ) نے کہا: میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔ ۔ ۔ تو تین رات تک(لوگوں سے کلام نہ کرسکے گا۔ ")سَوِيًّاکے معنی صحیح اور تندرست کے ہیں۔(فرمایا: )"چنانچہ حضرت زکریا اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو انھیں اشارہ کیا کہ صبح وشام تسبیح بیان کیا کرو۔ "وَأُوحِيَ کے معنی ہیں: اشارہ کرنا۔(نیز فرمایا: )"اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو۔ ۔ ۔ اور جب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ "حَفِيًّا کے معنی مہربان اورعَاقِرًاکے بانجھ ہیں۔ (یہ) مذکر اور مونث دونوں کے لیے آتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، انہوں نےکہاہم سے ہمام بن یحیی نےبیان کیا، انہوں نےکہاہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سےانس بن مالک نے اور ان سے مالک بن صعصہ ؓ نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ نےشب معراج کےمتعلق بیان فرمایا کہ پھر دروازہ کھولنے کےلیے کہا۔ پوچھا گیا، کون ہیں؟ کہا کہ جبریل ؑ پوچھا گیا، آپ کےساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (ﷺ) پوچھا گیا، کیا انہیں لانے کےلیے بھیجا گیا تھا؟ کہا جی ہاں۔ پھر جب میں وہاں پہنچا توعیسیٰ اور یحیی ؑ وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں نبی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبریل ؑ نےبتایا کہ یہ یحیی اور عیسی ٰ ؑ ہیں۔ انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلا م کیا، دونوں نے جواب دیا اور کہا خوش آمدید نیک بھائی اورنیک نبی۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت یحیی ؑ کاذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کےوالدہ حضرت مریم ؑ اور حضرت یحیی ؑ کی والدہ حضرت ایشاع دونوں ماں جائی تھیں جن کی ماں کا نام ہے۔ مریم سریانی لفظ ہےجس کےمعنی خادمہ کےہیں کرمانی و فتح وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik bin Sasaa (RA): That the Prophet (ﷺ) talked to them about the night of his Ascension to the Heavens. He said, "(Then Gabriel (ؑ) took me) and ascended up till he reached the second heaven where he asked for the gate to be opened, but it was asked, 'Who is it?' Gabriel (ؑ) replied, 'I am Gabriel (ؑ).' It was asked, 'Who is accompanying you?' He replied, 'Muhammad.' It was asked, 'Has he been called?' He said, 'Yes.' When we reached over the second heaven, I saw Yahya (i.e. John) and Jesus who were cousins. Gabriel (ؑ) said, 'These are John (Yahya) and Jesus, so greet them.' I greeted them and they returned the greeting saying, 'Welcome, O Pious Brother and Pious Prophet!;' "