باب : اللہ پاک کا سورۃ مریم میں فرمانا اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو ( سختی اور تشدد ) نہ کرو ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "O people of the Scriptures! Do not exceed the limits in your religion...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعا لیٰ کی نسبت وہی بات کہو جو سچ ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہما السّلام تو بس اللہ کے ایک پیغمبر ہی ہیں اور اس کا ایک کلمہ جسے اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور ایک روح ہے اس کی طرف سے ۔ پس اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ، اس سے بازآجاؤ ۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے ۔ اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ اسے کے بیٹا ہو ۔ اس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ ہی کا کار ساز ہونا کافی ہے ۔ ابو عبید نے بیان کیا کہ کلمتہ سے مراد اللہ تعا لیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو گیا اور دوسروں نے کہا کہ وروح منہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انہیں زندہ کیا اور اور روح ڈالی اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ۔نصاری ٰکے عقیدہ تثلیث کی تردید ہے جو روح القدس او مریم اور عیسیٰ تینوں کو ملاکر ایک خدا کے قائل ہیں۔ یہ ایسا باطل عقیدہ ہے جس پر عقل اور نقل سے صحیح دلیل پیش نہیں کی جا سکتی مگر عیسائی دنیا آج تک اس عقیدئہ فاسد پر جمی ہوئی ہے۔ آیت ولا تقولو اثلثۃ میں اسی عقیدئہ باطلہ کا ذکر ہے۔
3457.
حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے اس کاکوئی شریک نہیں اورحضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ بھی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نیز وہ اللہ کا ایسا کلمہ ہیں جسے مریم ؑ صدیقہ تک پہنچایا اور اس کی طرف سے روح ہیں، جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تو اس نے جو بھی عمل کیا ہوگا ، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے: ’’ایساشخص جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے گزرے گا۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کی طرف سے روح ہیں،اس سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کا جز اور اس کاحصہ ہیں جیسا کہ کچھ عیسائیوں کا عقیدہ ہے بلکہ اس مقام پر من ابتدا کے معنی دیتا ہے۔ اس کے حصہ ہونے کے معنی نہیں دیتا،یعنی یہ روح اللہ کی طرف سے تھی اگرچہ پھونک تو حضرت جبریل ؑ نے ماری تھی لیکن یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کچھ اسی کی طرف سے ہے،اس نے تمہارے لیے کام پر لگا رکھاہے۔‘‘ (الجاثیة:13/45) اس کے معنی یہ نہیں کہ تمام چیزیں اللہ کا جز ہیں،اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑکے متعلق روح منه کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ کا جز ہیں بلکہ وہ روح ،اللہ کی طرف سے ہے۔دراصل عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی تردید مقصود ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر عقل اور نقل سے کوئی صحیح اور معقول دلیل پیش نہیں کی جاسکتی لیکن افسوس کہ عیسائی دنیا اسی باطل عقیدے پر جمی ہوئی ہے۔ 2۔اس حدیث کے مطابق یہ عقیدہ رکھنے والا شخص مختار ہے جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ لیکن وہ دیکھے گا کہ جو دروازہ اس کے لیے مختص ہے، وہ اس کے حق میں دوسروں سے افضل ہے تو وہ اسے پسند کرے گا اور اپنے اختیار سے جنت میں داخل ہوگا۔ اس میں نہ تو وہ مجبور ہوگا اور نہ اس کو کوئی داخل ہونے سے منع ہی کرے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3304
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3435
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3435
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3435
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان میں ولادت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکرہے کہ انھیں باپ کے بغیر صرف کلمہ کن کے ذریعے سے پیداکیا۔گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی دوسروں کی طرح اللہ کی مخلوق ہیں تو انھیں معبود قراردینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔آیت کریمہ میں اللہ کی روح سے مراد یہ نہیں کہ خود اللہ کی ذات حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں حلول کر گئی جو گمراہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے بلکہ یہ تشریفی اضافت ہے جیسا کہ بیت اللہ میں ہے کیونکہ اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ وہاں رہتا ہے۔نعوذباللہ،بلکہ اس سے مراد وہ،گھر جہاں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن میں ہے کہ میں نے اس میں اپنی روح پھونکی،(الحجر 29/15)چنانچہ اس مقام پر روح سے مراد ایسی پھونک ہے جو اللہ کے حکم سے پھونکی گئی۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعا لیٰ کی نسبت وہی بات کہو جو سچ ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہما السّلام تو بس اللہ کے ایک پیغمبر ہی ہیں اور اس کا ایک کلمہ جسے اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور ایک روح ہے اس کی طرف سے ۔ پس اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ، اس سے بازآجاؤ ۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے ۔ اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ اسے کے بیٹا ہو ۔ اس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ ہی کا کار ساز ہونا کافی ہے ۔ ابو عبید نے بیان کیا کہ کلمتہ سے مراد اللہ تعا لیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو گیا اور دوسروں نے کہا کہ وروح منہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انہیں زندہ کیا اور اور روح ڈالی اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ۔نصاری ٰکے عقیدہ تثلیث کی تردید ہے جو روح القدس او مریم اور عیسیٰ تینوں کو ملاکر ایک خدا کے قائل ہیں۔ یہ ایسا باطل عقیدہ ہے جس پر عقل اور نقل سے صحیح دلیل پیش نہیں کی جا سکتی مگر عیسائی دنیا آج تک اس عقیدئہ فاسد پر جمی ہوئی ہے۔ آیت ولا تقولو اثلثۃ میں اسی عقیدئہ باطلہ کا ذکر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے اس کاکوئی شریک نہیں اورحضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ بھی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نیز وہ اللہ کا ایسا کلمہ ہیں جسے مریم ؑ صدیقہ تک پہنچایا اور اس کی طرف سے روح ہیں، جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تو اس نے جو بھی عمل کیا ہوگا ، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے: ’’ایساشخص جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے گزرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کی طرف سے روح ہیں،اس سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کا جز اور اس کاحصہ ہیں جیسا کہ کچھ عیسائیوں کا عقیدہ ہے بلکہ اس مقام پر من ابتدا کے معنی دیتا ہے۔ اس کے حصہ ہونے کے معنی نہیں دیتا،یعنی یہ روح اللہ کی طرف سے تھی اگرچہ پھونک تو حضرت جبریل ؑ نے ماری تھی لیکن یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کچھ اسی کی طرف سے ہے،اس نے تمہارے لیے کام پر لگا رکھاہے۔‘‘ (الجاثیة:13/45) اس کے معنی یہ نہیں کہ تمام چیزیں اللہ کا جز ہیں،اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑکے متعلق روح منه کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ کا جز ہیں بلکہ وہ روح ،اللہ کی طرف سے ہے۔دراصل عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی تردید مقصود ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر عقل اور نقل سے کوئی صحیح اور معقول دلیل پیش نہیں کی جاسکتی لیکن افسوس کہ عیسائی دنیا اسی باطل عقیدے پر جمی ہوئی ہے۔ 2۔اس حدیث کے مطابق یہ عقیدہ رکھنے والا شخص مختار ہے جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ لیکن وہ دیکھے گا کہ جو دروازہ اس کے لیے مختص ہے، وہ اس کے حق میں دوسروں سے افضل ہے تو وہ اسے پسند کرے گا اور اپنے اختیار سے جنت میں داخل ہوگا۔ اس میں نہ تو وہ مجبور ہوگا اور نہ اس کو کوئی داخل ہونے سے منع ہی کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سےصدقہ بن فضل نےبیان کیا ،کہا ہم سےولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا ،کہا کہ مجھ سےجنادہ بن ابی امیہ نےبیان کیا اوران سے عبادہ نےکہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا ،جس نےگواہی دی کہ اللہ کےسوا اورکوئی معبود نہیں ، وہ وحدہ لاشریک ہے اور یہ ہےکہ محمد ﷺ اس کےبندے اور رسول ہیں اور یہ عیسیٰ ؑ اس کےبندے اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں،جسے پہنچادیا تھا اللہ نےمریم تک اور ایک روح ہیں اس کی طرف سےاوریہ کہ جنت حق ہےاور دوزخ حق ہے تواس نےجوبھی عمل کیا ہوگا (آخر) اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ولید نےبیان کیا کہ مجھ سے ابن جابر نےبیان کیا، ان سےعمیر نے اور جنادہ نے اوراپنی روایت میں یہ زیادہ کیا (ایسا شخص ) جنت کےآٹھ دروازوں ےمیں سے جس سے چاہے۔ (داخل ہوگا)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubadah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If anyone testifies that None has the right to be worshipped but Allah Alone Who has no partners, and that Muhammad is His Slave and His Apostle, and that Jesus is Allah's Slave and His Apostle (ﷺ) and His Word which He bestowed on Mary and a Spirit created by Him, and that Paradise is true, and Hell is true, Allah will admit him into Paradise with the deeds which he had done even if those deeds were few." (Junada, the sub-narrator said, " 'Ubadah added, 'Such a person can enter Paradise through any of its eight gates he likes.")