تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کفران نعمت سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس کا انجام نعمت کا چھن جانا ہے جیسا کہ کوڑھی اور گنجے کا حشر ہوا۔ ہمیں اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے رہنا پھر ان کا شکر بجا لاتے رہنا چاہئے کیونکہ اس طرح خیرو برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور جب تمھارے رب نے اعلان کیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمھیں ضرور اور زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بھی شدید ہے۔‘‘ (ابراہیم:14/7) 2۔اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے گنجے پن کا علاج اگر حقیقی بالوں کے اگانے سے کیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ ایک علاج کی صورت ہے لیکن اگر منصوعی بالوں کی پیوندکاری سے کیا جائے یا اس کی جدید صورت وگ وغیرہ استعمال کی جائے تو اس کی شرعاً ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کرنے والے پر لعنت کی ارشاد نبوی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بالوں کی پیوندکاری کرنے والے اور کروانے والی پر لعنت کی ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5933) بہرحال جدید طب نے دور حاضر میں ان بالوں کی پیوندکاری کے ذریعے سے گنجے پن کا علاج دریافت کیا ہے اگرچہ یہ علاج بہت مہنگا ہے تاہم اس میں شرعاً کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔ 3۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہت جلد اپنی پہلی حالت کو بھول جاتا ہے خاص طور پر وہ لوگ جو پہلے غریب ہوتے ہیں پھر کسی اتفاقی حادثے کی صورت میں مال دار بن جاتے ہیں وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہماری اصلیت کیا تھی؟ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ جو اللہ تعالیٰ دولت دینے پر قادر ہے وہ اسے واپس لینے پر بھی قدرت رکھتا ہے مذکورہ واقعے میں یہی درس عبرت دیا گیا ہے۔ واللہ المستعان۔