Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The advent (descent) of 'Isa (Jesus), son of Maryam (Mary) alayhis-salam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3471.
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھاری اس وقت کیسی شان ہو گی جب تمھارے درمیان عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا؟‘‘ عقیل اور اوزاعی نے یونس کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ ’’تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔‘‘ نزول مسیح کے وقت نماز ادا کرنے کا وقت ہوگا اورجماعت تمہارا امام، یعنی حضرت مہدی کرائیں گے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوں گے تو مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا:آئیں ہمیں نماز پڑھائیں۔ وہ جواب دیں گے :نہیں ،تم ایک دوسرے کے امیر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ بزرگی بخشی ہے۔(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:395(156) واضح رہے کہ پہلی نماز تو امام مہدی پڑھائیں گے اور سیدناعیسیٰ ؑ ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے لیکن اس کے بعد دوسری نمازیں خود حضرت عیسیٰ ؑ پڑھائیں گے جیساکہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس جملے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ تمہارے خلیفہ ہوں گے اورتمہارے دین پر ہوں گے اورقرآن کے مطابق فیصلہ کریں گے، انجیل پر عمل نہیں کریں گے۔لیکن پہلے معنی زیادہ وزنی معلوم ہوتے ہیں۔ 2۔حضرت عیسیٰ ؑ کے نازل ہونے کی کیفیت یہ ہوگی کہ آپ ہلکے زرد رنگ کی چادریں پہنے ہوئے، دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے سفید مینار کے پاس مشرقی دمشق میں نزول فرمائیں گے۔ جب سرنیچا کریں گے تو موتیوں کی طرح قطرے ٹپکتے نظر آئیں گے اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو بھی یہی کیفیت ہوگی۔ کافر ان کی سانس کی بوپاتے ہی مرجائے گا اور ان کی سانس حد نظر تک پہنچے گی،پھر وہ دجال کو تلاش کریں گے تو اسے باب لد پر پائیں گے پھر اسے قتل کریں گے۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7373(2937) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دجال میری اُمت میں نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔۔۔راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں چالیس دن فرمایا یا چالیس سال۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔وہ ایسے ہوں گے جیسے عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کرکے اسے ہلاک کردیں گے۔پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دوآدمیوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7381(2940) حضرت نواس بن سمعان کی روایت میں ہے کہ دجال اس دنیا میں چالیس دن رہے گا۔(صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7373(2937) بہرحال حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ آسمان پراٹھا لیا گیاتھا۔ وہ آسمانوں میں زندہ ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے اوردجال کو قتل کرکے اس زمین میں کتاب وسنت کا جھنڈا گاڑیں گے۔ مشہور تابعی حضرت حسن فرماتے ہیں:اللہ کی قسم! حضرت عیسیٰ اللہ کے پاس زندہ ہیں، لیکن جب وہ نازل ہوں گے تو سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ (تفسیر طبري:14/6) مشہور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:اس امر پر امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان کی طرف اٹھالیا ہے۔ (الإبانة عن أصول الدیانة، ص:34) حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر اترنے کے بعدچالیس سال تک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے اورشریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ (مسند أحمد:75/6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معراج ہوا تو آپ نے سیدنا ابراہیم ؑ ،سیدناموسیٰ ؑ،اورسیدنا عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی اورباہم قیامت کا تذکرہ ہوا۔ بالآخر حضرت عیسیٰ ؑ سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:میرے ساتھ قیامت سے پہلے (نزول کا) وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کاوقت اللہ ہی کومعلوم ہے۔آپ نے خروج دجال کاذکر کیا اور فرمایا:میں نازل ہوکر اسے قتل کروں گا۔(سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث:4081 و المستدرك للحاکم:384/2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے دس نشانیوں کاذکر کیاہے ان میں سے حضرت عیسیٰ ؑ کا نازل ہونا بھی ہے۔(صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7285(2901) قرب قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کے اترنے میں یہ حکمت ہے کہ اس میں یہودیوں کی تردید ہے جنھوں نے کہا کہ ہم نے انھیں قتل کردیا ہے تواللہ تعالیٰ اس طرح ان کی تکذیب کرے گا کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کیا بلکہ وہ خود انھیں(یہودیوں کو) قتل کریں گے، نیز عیسائیوں کے باطل دعووں کے بطلان کا اظہار کریں گے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3317
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3449
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3449
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3449
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھاری اس وقت کیسی شان ہو گی جب تمھارے درمیان عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا؟‘‘ عقیل اور اوزاعی نے یونس کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ’’تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔‘‘ نزول مسیح کے وقت نماز ادا کرنے کا وقت ہوگا اورجماعت تمہارا امام، یعنی حضرت مہدی کرائیں گے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوں گے تو مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا:آئیں ہمیں نماز پڑھائیں۔ وہ جواب دیں گے :نہیں ،تم ایک دوسرے کے امیر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ بزرگی بخشی ہے۔(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:395(156) واضح رہے کہ پہلی نماز تو امام مہدی پڑھائیں گے اور سیدناعیسیٰ ؑ ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے لیکن اس کے بعد دوسری نمازیں خود حضرت عیسیٰ ؑ پڑھائیں گے جیساکہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس جملے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ تمہارے خلیفہ ہوں گے اورتمہارے دین پر ہوں گے اورقرآن کے مطابق فیصلہ کریں گے، انجیل پر عمل نہیں کریں گے۔لیکن پہلے معنی زیادہ وزنی معلوم ہوتے ہیں۔ 2۔حضرت عیسیٰ ؑ کے نازل ہونے کی کیفیت یہ ہوگی کہ آپ ہلکے زرد رنگ کی چادریں پہنے ہوئے، دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے سفید مینار کے پاس مشرقی دمشق میں نزول فرمائیں گے۔ جب سرنیچا کریں گے تو موتیوں کی طرح قطرے ٹپکتے نظر آئیں گے اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو بھی یہی کیفیت ہوگی۔ کافر ان کی سانس کی بوپاتے ہی مرجائے گا اور ان کی سانس حد نظر تک پہنچے گی،پھر وہ دجال کو تلاش کریں گے تو اسے باب لد پر پائیں گے پھر اسے قتل کریں گے۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7373(2937) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دجال میری اُمت میں نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔۔۔راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں چالیس دن فرمایا یا چالیس سال۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔وہ ایسے ہوں گے جیسے عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کرکے اسے ہلاک کردیں گے۔پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دوآدمیوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7381(2940) حضرت نواس بن سمعان کی روایت میں ہے کہ دجال اس دنیا میں چالیس دن رہے گا۔(صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7373(2937) بہرحال حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ آسمان پراٹھا لیا گیاتھا۔ وہ آسمانوں میں زندہ ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے اوردجال کو قتل کرکے اس زمین میں کتاب وسنت کا جھنڈا گاڑیں گے۔ مشہور تابعی حضرت حسن فرماتے ہیں:اللہ کی قسم! حضرت عیسیٰ اللہ کے پاس زندہ ہیں، لیکن جب وہ نازل ہوں گے تو سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ (تفسیر طبري:14/6) مشہور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:اس امر پر امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان کی طرف اٹھالیا ہے۔ (الإبانة عن أصول الدیانة، ص:34) حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر اترنے کے بعدچالیس سال تک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے اورشریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ (مسند أحمد:75/6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معراج ہوا تو آپ نے سیدنا ابراہیم ؑ ،سیدناموسیٰ ؑ،اورسیدنا عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی اورباہم قیامت کا تذکرہ ہوا۔ بالآخر حضرت عیسیٰ ؑ سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:میرے ساتھ قیامت سے پہلے (نزول کا) وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کاوقت اللہ ہی کومعلوم ہے۔آپ نے خروج دجال کاذکر کیا اور فرمایا:میں نازل ہوکر اسے قتل کروں گا۔(سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث:4081 و المستدرك للحاکم:384/2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے دس نشانیوں کاذکر کیاہے ان میں سے حضرت عیسیٰ ؑ کا نازل ہونا بھی ہے۔(صحیح مسلم، الفتن، حدیث:7285(2901) قرب قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کے اترنے میں یہ حکمت ہے کہ اس میں یہودیوں کی تردید ہے جنھوں نے کہا کہ ہم نے انھیں قتل کردیا ہے تواللہ تعالیٰ اس طرح ان کی تکذیب کرے گا کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کیا بلکہ وہ خود انھیں(یہودیوں کو) قتل کریں گے، نیز عیسائیوں کے باطل دعووں کے بطلان کا اظہار کریں گے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کہا، ان سےیونس نے، ان سےابن شہاب نے، ان سےحضرت ابوقتادہ انصاری کےغلام نافع نے اور ان سےحضرت ابوہریرہ نےبیان کیاکہ رسول کریم ﷺ نےفرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب عیسیٰ ابن مریم ؑ میں اتر یں گے (نماز پڑھ رہے رہو گے) اورتمہارا امام تم ہی میں سےہوگا۔ اس روایت کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے کی۔
حدیث حاشیہ:
آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کےآسمان سےنازل ہونے پرامت اسلامیہ کااجماع ہے۔ آیت قرآنی ﴿وإن مِن أَھلِ الکِتَابِ الخ﴾ اس عقیدہ پرنص قطعی ہےاوراحادیث صحیحہ اس بارے میں موجود ہیں۔اس زمانہ آخر میں چند نیچری قسم کےلوگوں نےاس عقیدہ کا انکار کیا اور پنجاب کےایک شخص مرزا قادیانی نے اس انکار کوبہت کچھ اچھالا اورجملہ مسلمانان سلف وخلف کے خلاف ان کی موت کاعقیدۂ باطلہ مشہورد کیا، جوصریح باطل ہے۔کسی بھی راسخ الایمان مسلمان کوایسے بدعقیدہ لوگوں کی ہفوات سےمتاثر نہیں ہوناچاہیے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said "How will you be when the son of Mary (i.e. Jesus) descends amongst you and he will judge people by the Law of the Qur'an and not by the law of Gospel (Fateh-ul Bari page 304 and 305 Vol 7)