تشریح:
1۔ امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی بنی اسرائیل کے نبی کا ہے لیکن امام مسلم ؒنے اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا یہ واقعہ ہے گویا آپ اس واقعے کے خود ہی بیان کرنے والے اور خود ہی صاحب واقعہ ہیں غزوہ احد کے وقت جب کفار مکہ نے آپ کا چہرہ خون آلود کردیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کر دیا اور اس کے اگلے دانت شہید کردیے جبکہ وہ انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ’’آپ کا اس بات میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہےتو انھیں معاف کردے چاہے تو سزا دے۔ وہ بہر حال ظالم تو ہیں ہی۔‘‘ (آل عمران:128/3۔ و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4645۔1791) امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی گزشتہ نبی کا واقعہ بیان کیا ہے اگرچہ غزوہ احدکے موقع پر آپ کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔ (فتح الباري:637/6) 2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ پر گالیاں سننا اور ماریں کھانا انبیاء کی سنت ہے۔