Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3477.
حضرت ابو حازم (سلمان اشجعی ؓ) بیان کرتے ہیں۔ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوں، میں نے انھیں نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: کہ آپ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی حکومت حضرات انبیاء ؑ چلاتے اور ان کے امور کا انتظام کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کا جانشین دوسرا نبی ہو جا تا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ بھی بکثرت ہوں گے۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی خلیفہ ہو جائے۔ (اور تم نے اس سے بیعت کر لی ہو)تو اس سے کی ہوئی بیعت پوری کرو۔ پھر اس کے بعد جو پہلے ہو اس کی بیعت پوری کرو۔ انھیں ان کا حق دو۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی رعایا کا حق کیسے ادا کیا؟‘‘
تشریح:
1۔ سیاست کے معنی کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اصلاح حضرات انبیاء ؑ کرتے تھے۔ جب ان میں کوئی فتنہ وفساد رونما ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے دورکرنے کے لیے کسی نبی کابندوبست کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو پہلے انبیاء علیہ السلام جیسا فریضہ ادا کرے،البتہ میرے خلفاء بکثرت ہوں گے۔ان کی اطاعت کرانا امت پر واجب ہے۔‘‘ 2۔ اس عالم رنگ وبو میں مسلمانوں کے بیک وقت دو خلیفے نہیں ہوسکتے، جب ایک خلیفے کی خلافت شرعی طریقے سے منعقد ہوجائے تو وفاداری اور جاں نثاری اسی سے وابستہ کی جائے، اس کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا خلیفہ بن بیٹھے تو اس کی گردن اڑادینے کا حکم ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ جب دوخلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کردیاجائے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث:4799(1853) افسوس کہ اقتدار کی بندر بانٹ نے مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے۔ مغربی جمہوریت نے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسلم ممالک اسی طوائف الملوکی کی پیداوار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جمہوریت کے نتیجے میں اسمبلیاں قائم ہوتی ہیں وہ دراصل مچھلی بازار کا نمونہ ہیں۔ پھر ممبران اسمبلی کی قیمت لگتی ہے۔ اس کےبعد کاروائی کے دوران میں گالی گلوچ اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف آوازے کسے جاتے ہیں۔ جوتے اور کرسیاں چلتی ہیں۔ بالآخر اسمبلی کی کاروائی سے غیر پارلیمانی جملے حذف کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام اور تقسیم درتقسیم کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان۔ 3۔ اس حدیث میں خلفاء کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ اگروہ اپنے ذمے داری ادا نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج نام نہاد جمہوری دور میں کرسیوں پر براجمان ہونے والوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے ذمے داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کے متعلق سوچتے ہیں؟ انھیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو اس وقت کچھ یاد آتا ہے، غریبوں سے ہمدردی کا درداٹھتا ہے، بعد میں سب بھول جاتے ہیں۔ إِناللہ وإنا إلیه راجعون۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3322
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3455
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3455
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3455
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابو حازم (سلمان اشجعی ؓ) بیان کرتے ہیں۔ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوں، میں نے انھیں نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: کہ آپ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی حکومت حضرات انبیاء ؑ چلاتے اور ان کے امور کا انتظام کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کا جانشین دوسرا نبی ہو جا تا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ بھی بکثرت ہوں گے۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی خلیفہ ہو جائے۔ (اور تم نے اس سے بیعت کر لی ہو)تو اس سے کی ہوئی بیعت پوری کرو۔ پھر اس کے بعد جو پہلے ہو اس کی بیعت پوری کرو۔ انھیں ان کا حق دو۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی رعایا کا حق کیسے ادا کیا؟‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سیاست کے معنی کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اصلاح حضرات انبیاء ؑ کرتے تھے۔ جب ان میں کوئی فتنہ وفساد رونما ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے دورکرنے کے لیے کسی نبی کابندوبست کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو پہلے انبیاء علیہ السلام جیسا فریضہ ادا کرے،البتہ میرے خلفاء بکثرت ہوں گے۔ان کی اطاعت کرانا امت پر واجب ہے۔‘‘ 2۔ اس عالم رنگ وبو میں مسلمانوں کے بیک وقت دو خلیفے نہیں ہوسکتے، جب ایک خلیفے کی خلافت شرعی طریقے سے منعقد ہوجائے تو وفاداری اور جاں نثاری اسی سے وابستہ کی جائے، اس کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا خلیفہ بن بیٹھے تو اس کی گردن اڑادینے کا حکم ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ جب دوخلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کردیاجائے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث:4799(1853) افسوس کہ اقتدار کی بندر بانٹ نے مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے۔ مغربی جمہوریت نے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسلم ممالک اسی طوائف الملوکی کی پیداوار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جمہوریت کے نتیجے میں اسمبلیاں قائم ہوتی ہیں وہ دراصل مچھلی بازار کا نمونہ ہیں۔ پھر ممبران اسمبلی کی قیمت لگتی ہے۔ اس کےبعد کاروائی کے دوران میں گالی گلوچ اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف آوازے کسے جاتے ہیں۔ جوتے اور کرسیاں چلتی ہیں۔ بالآخر اسمبلی کی کاروائی سے غیر پارلیمانی جملے حذف کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام اور تقسیم درتقسیم کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان۔ 3۔ اس حدیث میں خلفاء کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ اگروہ اپنے ذمے داری ادا نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج نام نہاد جمہوری دور میں کرسیوں پر براجمان ہونے والوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے ذمے داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کے متعلق سوچتے ہیں؟ انھیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو اس وقت کچھ یاد آتا ہے، غریبوں سے ہمدردی کا درداٹھتا ہے، بعد میں سب بھول جاتے ہیں۔ إِناللہ وإنا إلیه راجعون۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمدبن بشار نے بیان کیا ،کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ، کہا ہم سےشعبہ نےبیان کیا، ان سے قرات قزارنے بیان کیا، انہوں ابوالحازم سےسنا،انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت ابوہریرہ کےمجلس میں پانچ سال تک بیٹھا ہوں۔ میں نےانہیں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتےسنا کہ آپ نےفرمایابنی اسرائیل کےانبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتےتھے،جب بھی ان کاکوئی نبی ہلاک ہوجاتا تو وہ دوسرے ان کی جگہ آموجود ہوتے، لیکن یادر رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے کا۔ ہاں میرےنائب ہوں گے اوربہت ہوں گے ۔صحابہ نےعرض کیا کہ ان کےمتعلق آپ کاہمیں کیا حکم ہے۔ آپ نےفرمایا کہ سب سےپہلے جس سے بیعت کرلو، بس اسی کی وفاداری پرقائم رہو اوران کا جوحق ہےاس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالی ان سے قیامت کےدن ان کی رعایا کےبارےمیں سوال کرےگا۔
حدیث حاشیہ:
خلفاء کی اطاعت کےساتھ خلفاء کوبھی ان کی ذمہ داریوں کےاداکرنے پرتوجہ دلائی گئی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے، ان کواللہ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کاسامنا کرناہوگا، ٖآج نام نہاد جمہوریت کےدورمیں کرسیوں پرآنے والے لوگوں کےلیے بھی یہی حکم ہےکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جواپنی ذمہ داریوں کوسوچتےہیں، ان کوصرف ووٹ مانگنے کے وقت کچھ یاد آتاہے بعد میں سب بھول جاتےہیں۔ إلاما شاء اللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The Israelis used to be ruled and guided by prophets: Whenever a prophet died, another would take over his place. There will be no prophet after me, but there will be Caliphs who will increase in number." The people asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What do you order us (to do)?" He said, "Obey the one who will be given the pledge of allegiance first. Fulfil their (i.e. the Caliphs) rights, for Allah will ask them about (any shortcoming) in ruling those Allah has put under their guardianship."