Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3481.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تمھارا زمانہ پہلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب کا وقت ہے۔ تمھاری مثال، یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے چند مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو نصف دن تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نصف دن سے عصر تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو عیسائیوں نے نصف دن سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دودوقیراط پر میرا کام کرے؟ دیکھو، تم وہ لوگ ہو جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دو دو قیراط پر کام کرتے ہو۔ تم آگاہ رہوکہ تمھاری مزدوری دوگنی ہے۔ (یہ دیکھ کر) یہود و نصاریٰ غصے سے بھر گئے اور کہنے لگے: ہم نے کام زیادہ کیا اور اجرت کم ملی ہے۔ تواللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: کیا میں نے تمھیں تمھارا حق دینے میں کوئی کمی کی ہے؟ انھوں نے کہا: ایسا تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں۔‘‘
تشریح:
1۔ یہودونصاریٰ اور مسلمان مذہبی دنیا کی یہ تین قومیں ہیں جنھیں آسمانی کتابیں دی گئیں۔ ان کے علاوہ دوسری قوموں میں بھی الہام ربانی کا القا ہوا ہے مگر ان کی تاریخ مستند ذرائع سے مرتب نہیں ہوسکی۔ بہرحال یہ تین مذہبی قومیں دنیا میں اپنے قدیم دعووں کے ساتھ موجودہیںِ، جن میں مسلمان قوم ایک ایسے دین کی علمبردار ہے جس نے سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کردیا ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے یہ برتری بخشی ہے کہ ہر نیک کرم کرنے پر ان کو نہ صرف دوگنا بلکہ دس گنا تک اجر ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جو کوئی اللہ کے ہاں نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا دس گنا ثواب ملے گا۔‘‘ (الأنعام:160/6) بلکہ بعض اعمال صالحہ کا ثواب دس سے بھی زیادہ کئی سوگنا تک ملتا ہے۔ بعض اعمال ایسے ہیں جن کے اجر کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں بلکہ بلاحد وحساب اس کا اجر ملتا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلاحساب دیا جائے گا۔‘‘ (الزمر 10/39) احادیث کے مطابق روزہ بھی انھی اعمال سے ہے جن کا اجر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بلاحساب دے گا۔ 2۔بہرحال اس حدیث میں یہود و نصاریٰ کا ایک کردار نمایاں طور پر بیان ہوا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3326
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3459
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3459
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3459
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تمھارا زمانہ پہلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب کا وقت ہے۔ تمھاری مثال، یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے چند مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو نصف دن تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نصف دن سے عصر تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو عیسائیوں نے نصف دن سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دودوقیراط پر میرا کام کرے؟ دیکھو، تم وہ لوگ ہو جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دو دو قیراط پر کام کرتے ہو۔ تم آگاہ رہوکہ تمھاری مزدوری دوگنی ہے۔ (یہ دیکھ کر) یہود و نصاریٰ غصے سے بھر گئے اور کہنے لگے: ہم نے کام زیادہ کیا اور اجرت کم ملی ہے۔ تواللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: کیا میں نے تمھیں تمھارا حق دینے میں کوئی کمی کی ہے؟ انھوں نے کہا: ایسا تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہودونصاریٰ اور مسلمان مذہبی دنیا کی یہ تین قومیں ہیں جنھیں آسمانی کتابیں دی گئیں۔ ان کے علاوہ دوسری قوموں میں بھی الہام ربانی کا القا ہوا ہے مگر ان کی تاریخ مستند ذرائع سے مرتب نہیں ہوسکی۔ بہرحال یہ تین مذہبی قومیں دنیا میں اپنے قدیم دعووں کے ساتھ موجودہیںِ، جن میں مسلمان قوم ایک ایسے دین کی علمبردار ہے جس نے سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کردیا ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے یہ برتری بخشی ہے کہ ہر نیک کرم کرنے پر ان کو نہ صرف دوگنا بلکہ دس گنا تک اجر ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جو کوئی اللہ کے ہاں نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا دس گنا ثواب ملے گا۔‘‘ (الأنعام:160/6) بلکہ بعض اعمال صالحہ کا ثواب دس سے بھی زیادہ کئی سوگنا تک ملتا ہے۔ بعض اعمال ایسے ہیں جن کے اجر کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں بلکہ بلاحد وحساب اس کا اجر ملتا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلاحساب دیا جائے گا۔‘‘ (الزمر 10/39) احادیث کے مطابق روزہ بھی انھی اعمال سے ہے جن کا اجر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بلاحساب دے گا۔ 2۔بہرحال اس حدیث میں یہود و نصاریٰ کا ایک کردار نمایاں طور پر بیان ہوا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سےقتیبہ بن سعید نے نیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سےحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا زمانہ پچھلی امتوں کےمقابلے میں ایسا ہےجیسے عصرسےمغرب تک کاوقت ہے، تمہاری مثال یہہود و نصاری کےساتھ ایسی ہےجیسے کسی شخص نےکچھ مزدور لئے اورکہا کہ میرا کام آدھے دن تک کون ایک ایک قیراط کی اجرت پر کرے گا؟ یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پرکام کرناطے کرلیا۔ پھر اس شخص نےکہا کہ آدھے دن سےعصر کی نماز تک میرا کام کون شخص ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کرےگا۔ اب نصاریٰ ایک ایک قیراط کی مزدوری پر آدھے دن سےعصر کےوقت تک مزدوری کرنے پرتیار ہوگئے۔ پھر اس شخص نےکہاکہ عصرکی نماز سےسورج ڈوبنے تک دو دو قیراط پرکون شخص میرا کام کرےگا؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیےکہ وہ تمہیں لوگ ہوجو دو دو قیراط کی مزدوری پرعصر سےسورج ڈوبنےتک کاکروگے، تم آگاہ رہو کہ تمہاری مزدوری دگنی ہے۔ یہود و نصاری اس فیصلہ پرغصے ہوگئے اور کہنے لگے کہ کام توہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کوکم ملے۔ اللہ تعالی نےان سےفرمایا کیا میں تمہیں تمہاراحق دینے میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نےکہا کہ نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں زیادہ دوں۔
حدیث حاشیہ:
یہود و نصاری اورمسلمان مذہبی دنیا کی یہ تین عظیم قومیں ہیں، جن کو آسمانی کتابیں دی گئی ہیں، ان کےعلاوہ دنیا کی دوسری قوموں میں بھی الہام ربانی کا القاء ہواہے مگر اب ان کی تاریخ مستند نہیں ہے۔ بہرحال یہ تین قومیں آج بھی دنیامیں اپنے قدیم دعاوی کےساتھ موجود ہیں جن میں مسلمان قوم ایک ایسے دین کی علم بردار ہےجو ناسخ الادیان ہونے کا مدعی ہے، ان کواللہ نےیہ فضیلت بخشی ہے کہ ہرنیک کام پر ان کونہ صرف دوگنا بلکہ د س گنا اجرملتاہے۔ حدیث میں یہی تمثیل بیان کی گئی ہے۔ قیراط چار جوکے برابر وزن کوکہتےہیں، بعض اعمال صالحہ کا ثواب دس سے بھی زیادہ کئی گنا تک ملتاہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Your period (i.e. the Muslims' period) in comparison to the periods of the previous nations, is like the period between the 'Asr prayer and sunset. And your example in comparison to the Jews and the Christians is like the example of a person who employed some laborers and asked them, 'Who will work for me till midday for one Qirat each?' The Jews worked for half a day for one Qirat each. The person asked, 'Who will do the work for me from midday to the time of the 'Asr (prayer) for one Qirat each?' The Christians worked from midday till the 'Asr prayer for one Qirat. Then the person asked, 'Who will do the work for me from the 'Asr till sunset for two Qirats each?' " The Prophet (ﷺ) added, "It is you (i.e. Muslims) who are doing the work from the Asr till sunset, so you will have a double reward. The Jews and the Christians got angry and said, 'We have done more work but got less wages.' Allah said, 'Have I been unjust to you as regards your rights?' They said, 'No.' So Allah said, 'Then it is My Blessing which I bestow on whomever I like. "