Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3485.
حضرت حسن بصری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہمیں حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مسجد میں حدیث بیان کی جسے ہم بھولے نہیں اور ہمیں اس بات کا بھی اندیشہ نہیں کہ حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ﷺ پر جھوٹ باندھا ہو۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک شخص کو بہت زخم آئے۔ وہ ان کی تاب نہ لاکر گھبرا گیا۔ اس نے چھری پکڑی اور اپنا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بند نہ ہونے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا : میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی، لہذا میں نے جنت کو اس پر حرام کردیا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں (من قبلكم) کے الفاظ ہیں جو بنی اسرائیل کو بھی شامل ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہےکہ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے، یہ حکم زجر و توبیخ پر مبنی ہے۔ یہ بھی ممکن ہےکہ اس نے خود کشی کو جائز خیال کیا ہو، ایساکرنا کفر ہے اور کافر پر جنت حرام ہے، یا اس پر خاص جنت حرام کردی گئی ہو، یعنی وہ جنت الفردوس میں داخل نہیں ہوگا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس طرح کے سات محل بیان کیے ہیں۔ بہرحال خود کشی کرنا بہت سنگین جرم ہے، اس اقدام سے انسان جنت سے محروم ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري:611/6) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سابقہ امتوں کے واقعات بیان کرنا درست ہے بشرط یہ کہ ان میں عبرت ونصیحت کا کوئی پہلو ہے، ویسے تفریح طبع کے طور پر واقعات سننا اور بیان کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔ 4۔ ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے اہل کتاب کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒنے ان احادیث کو بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3330
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3463
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3463
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3463
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت حسن بصری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہمیں حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مسجد میں حدیث بیان کی جسے ہم بھولے نہیں اور ہمیں اس بات کا بھی اندیشہ نہیں کہ حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ﷺ پر جھوٹ باندھا ہو۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک شخص کو بہت زخم آئے۔ وہ ان کی تاب نہ لاکر گھبرا گیا۔ اس نے چھری پکڑی اور اپنا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بند نہ ہونے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا : میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی، لہذا میں نے جنت کو اس پر حرام کردیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں (من قبلكم) کے الفاظ ہیں جو بنی اسرائیل کو بھی شامل ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہےکہ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے، یہ حکم زجر و توبیخ پر مبنی ہے۔ یہ بھی ممکن ہےکہ اس نے خود کشی کو جائز خیال کیا ہو، ایساکرنا کفر ہے اور کافر پر جنت حرام ہے، یا اس پر خاص جنت حرام کردی گئی ہو، یعنی وہ جنت الفردوس میں داخل نہیں ہوگا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس طرح کے سات محل بیان کیے ہیں۔ بہرحال خود کشی کرنا بہت سنگین جرم ہے، اس اقدام سے انسان جنت سے محروم ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري:611/6) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سابقہ امتوں کے واقعات بیان کرنا درست ہے بشرط یہ کہ ان میں عبرت ونصیحت کا کوئی پہلو ہے، ویسے تفریح طبع کے طور پر واقعات سننا اور بیان کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔ 4۔ ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے اہل کتاب کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒنے ان احادیث کو بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سےمحمد نےبیان کیا، ان سے حسن نے، کہا ہم سے حضرت جندب بن عبداللہ نےاسی مسجد میں بیان کیا (حسن نےکہاکہ) انہوں نے جب ہم سے بیان کیاہم اسے بھولے نہیں اور نہ ہمیں اس کا اندیشہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف اس حدیث کی نسبت غلط کی ہوگی، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا، پچھلے زمانے میں ایک شخص (کےہاتھ میں) زخم ہوگیا تھا اور اسے اس سےبڑی تکلیف تھی، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتبجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سےوہ مرگیا پھراللہ تعالی نے فرمایا کہ میرے بندے نےخود میرے پاس آنےمیں جلد ی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پرحرام کردیا۔
حدیث حاشیہ:
پچھلے زمانے کےشخص کا ذکر حدیث میں وارد ہوا، یہی باب سےمناسبت ہے، حدیث سےیہ ظاہر ہواکہ خود کشی کرنے والے پرجنت حرام ہے، ان جملہ احادیث میں اہل کتاب کا ذکر کسی نہ کسی طور بتایا ہے، اسی لیے ان کویہاں درج کیا گیاہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jundub (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Amongst the nations before you there was a man who got a wound, and growing impatient (with its pain), he took a knife and cut his hand with it and the blood did not stop till he died. Allah said, 'My Slave hurried to bring death upon himself so I have forbidden him (to enter) Paradise.' "