تشریح:
1۔ زور سے مراد جھوٹ اور فریب ہے یعنی غلط طریقے سے بالوں کی نمائش اور آرائش کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے بال اپنے بالوں میں ملا کر جھوٹ موٹ کی زینت حاصل کرنا در اصل یہودیوں کی عورتوں میں بہت سی معاشرتی بیماریاں در آئی تھیں۔ ان میں ایک یہ تھی کہ وہ مصنوعی بالوں کا عام استعمال کرتی تھیں رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرما دیا۔ آپ نے اس عورت پر لعنت کی ہےجو بالوں میں مصنوعی بال ملاتی ہے اور جس عورت کے لیے یہ کام کیا جائے گا اسے بھی لعنتی قراردیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:(5934) دور جدید میں اسے وگ کہا جاتا ہے اور بازاروں میں عام دستیاب ہے۔ اس کے مختلف سٹائل ہوتے ہیں۔ پہلے تو اسے صرف گنجاپن چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہےلیکن اب اس معاشرے نے "ترقی" کرتے ہوئے بطور زینت اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس قسم کے فریب اور جھوٹ کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ہلاکت اور تباہی ایسے ہی کاموں سے ہوئی۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:(5932)بنی اسرائیل کی پست قد عورتیں لکڑی کی مصنوعی ٹانگیں بھی استعمال کرتی تھیں تاکہ خود کو دراز قد دکھایا جائے۔ ہمارے معاشرے میں اونچی ایڑی والی جوتی استعمال کی جاتی ہے اسلام دین فطرت ہے اور جھوٹی زینت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں ایسے تمام کاموں سے بچنا چاہیے جس میں فریب کاری یا دھوکا دہی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایسے تمام کام باعث لعنت ہیں۔ 2۔ا مام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا بنی اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ کا کردار پیش ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان ایسے کاموں سے بچیں جو یہود و نصاری کی پہچان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر کاربند رکھے اور اس پر ہمارا خاتمہ کرے۔ آمین۔