تشریح:
1۔ شب معراج میں فرضیت نماز کی یہ حکمت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات فرشتوں کی مختلف عبادات کو دیکھا، ان میں جو حالت قیام میں تھے وہ بیٹھتے نہیں تھے اورجو رکوع میں تھے وہ سجدے میں نہ جاتے تھے اور بہت سے فرشتے حالت سجدے میں پڑے اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تمام انواع عبادت کو ایک رکعت نماز میں جمع کردیا، نیز اس میں نماز کی عظمت اور اس کے شرف کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی فرضیت میں یہ خصوصیت رکھی گئی کہ اس کی فرضیت بلاواطہ فرشتہ ہوئی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں کہ شب معراج میں فرضیت نماز کی حکمت تھی کہ معراج سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ظاہری اور باطنی طہارت سے آراستہ کیا گیا کہ آپ کے قلب مبارک کو آب زم زم سے دھوکر اس میں ایمان وحکمت کوبھردیا گیا کہ آپ اپنے رب سے مناجات کے لیے مستعد ہوجائیں۔ اسی طرح نماز میں بھی بندہ اپنے رب سے رازونیاز کی باتیں کرنے کےلیے پہلے خود کو طہارت ونظافت سے مزین کرتا ہے، اس لیے مناسب ہواکہ معراج کی مناسبت سے اس امت پر نماز کو فرض کردیا جائے، نیز اس سے ملاء اعلیٰ پر رسول اللہ ﷺ کا شرف ظاہرکرنا بھی مقصود تھا تاکہ ساکنان حریم قدس ملائکہ اورحضرات انبیائے کرام علیہ السلام کی امامت کروائیں اور اپنے رب سے مناجات کریں، اس مناسبت سے نمازی بھی دوران نماز میں اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔ (فتح الباري:596/1) 2۔ اس روایت میں بیت المقدس تک اسراء کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معراج اسراء کے بغیر ہے، بلکہ کسی راوی نے واقعہ مختصر کردیا ہے۔ امام بخاری ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جس رات میں نماز فرض ہوئی اس رات میں بیت المقدس تک اسراء بھی ہے اورعالم بالا تک معراج بھی ہواہے۔ اگرچہ اسرا اورمعراج دوالگ الگ چیزیں ہیں، یعنی مکے سے بیت المقدس تک کاسفر اسراکہلاتا ہے اور بیت المقدس سے عالم بالا کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں سفر ایک ہی رات سے متعلق ہیں، چنانچہ عنوان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسراء کی رات نماز کیسے فرض ہوئی؟ حالانکہ روایت میں اسراء کا ذکر نہیں ہے، لیکن اسراء کا واقعہ بھی اسی رات میں بحالت بیداری پیش آیا۔ واللہ أعلم۔ 3۔ اس روایت سے امام بخاریؒ کامقصود صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو امت پر پچاس نمازیں فرض فرمادیں جو بندے اور آقا کے درمیان مناجات کا ذریعہ ہیں، چنانچہ آپ بے چون چرا اس تحفے کو لے کر واپس ہوئے۔ آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ پچاس نمازیں کی طرح ادا ہوں گی، کیونکہ آپ مقام عبدیت میں ہیں، عبودیت کامل تھی جس کا تقاضا تھا کہ جو چیز آقا کی طرف سے عطا کی جائے، اسے بلاچون وچرا قبول کیاجائے۔ ان پچاس نمازوں کی فرضیت میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ بندوں پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت نماز ہے۔ جس قدر یہ نعمت زیادہ ہوگی، اس قدر شان نمایاں ہوگی۔ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نوبار اپنے رب کے حضور آمدروفت سے پچاس نمازوں میں سے پانچ رہ گئیں۔ ایک مرتبہ میں ہی تخفیف کرکے پانچ کی جاسکتی تھیں، مگر اس صورت میں آپ کی شان محبوبیت کا اظہار نہ ہوتا۔ بار بار حاضری کا موقع دیا جارہا ہے، آخر میں فرمادیا کہ اب نمازیں پانچ ہیں۔ وہ پانچ رہتے ہوئے بھی پچاس ہی ہیں۔ چونکہ قرآنی ضابطے کے مطابق ایک نیکی کااجر دس گنا ہے، اس لیے پانچ نمازیں اداکرنے سے پچاس ہی کا ثواب لکھاجاتاہے۔ (فتح الباري:600/1) 4۔ آخری مرتبہ پانچ نمازیں رہ جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے واپس جانے کی جو وجہ ظاہر کی ہے وہ یہ کہ اب مجھے اپنے رب سے درخواست پیش کرنے میں شرم آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ پانچ کی تخفیف سے یہ اندازہ لگالیاتھا کہ اگر پانچ رہ جانے کے بعد بھی درخواست کریں گے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ باقی ماندہ پانچ نمازیں بھی بالکل معاف کردی جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطیے کو واپس کیا جارہا ہے جو کسی حال میں مناسب نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہ کیا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو یقین ہوگیا تھا کہ ہربار میں جو باقی حکم رہ گیا ہے وہ حتمی اور آخری فیصلہ نہیں، لیکن آخری بار میں پانچ نمازوں کے ساتھ فرمادیاتھا کہ میرے ہاں قول وفیصلہ کی الٹ پلٹ نہیں ہوتی، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اب آخری اور حتمی فیصلہ ہوچکاہے، اب تخفیف کی درخواست کرنا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:600/1) 5۔ حدیث میں ہے کہ معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کی آخری آیات اوربشرط عدم شرک کبائر کی مغفرت۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:431 (173)) پانچ نمازوں کی عطا سے مراد ان کی فرضیت ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُولُ) سے ختم سورت تک ان آیات میں اس اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت، تخفیف احکام، بشارت مغفرت اور کافروں کے مقابلے میں نصرت کابیان ہے۔ اس عطا سے مراد عطائے مضمون ہے، کیونکہ نزول کے لحاظ سے تو تمام سورہ بقرہ مدنی ہے اور معراج مکرمہ میں ہوئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شب معراج میں بلاواسطہ یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہوں، پھر جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں تومصحف میں لکھی گئیں۔ کبائر معاصی کی مغفرت کا مطلب یہ نہیں کہ موحدین اہل کبائر کو قیامت کے دن عذاب ہی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات تو اجماع اہل سنت کےخلاف ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار ومشرکین کی طرح امت کے اہل کبائر ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، بلکہ انھیں آخر کار جہنم سے نکال لیا جائےگا۔ واللہ أعلم۔ نوٹ:۔اسراء اورمعراج کے متعلق دیگرمباحث کتاب احادیث الانبیاء حدیث: 3342۔ میں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ