مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3496.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓسے پوچھا: کیاآپ نے رسول اللہ ﷺ سےمرض طاعون کے متعلق کچھ سناہے؟ حضرت اسامہ ؓنے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا، لہذا جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پھیلے جہاں تم رہتے ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔‘‘ راوی حدیث ابو نضر نے کہا: ’’صرف طاعون سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔‘‘
تشریح:
1۔ طاعون ایک وبائی مرض ہے جو سخت درد ناک اور جلن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے بغلوں میں ورم آتا ہے پھر چاروں اطراف سیاہ سبز ہو جاتی ہیں۔ دل گھبراتا ہے قے آنا شروع ہو جاتی ہے بالآخر اس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے بنی اسرائیل پر عذاب کی شکل میں اس کا ظہور ہوا البتہ اس امت کے لیے گناہوں کا کفارہ ہے۔ 2۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہو وہاں سے کسی دوسری جگہ راہ فراراختیار کرتے ہوئےنہیں جانا چاہیے البتہ بغرض تجارت حصول علم اور جہاد وغیرہ کے لیے نکلنا جائز ہے راوی حدیث ابو نضر کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ جب تمہارا نکلنا صرف طاعون سے فرار کے لیے ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ یعنی جس نکلنے سے منع کیا گیا ہے وہ محض فرار کے طور پر وہاں سے بھاگنا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3341
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3473
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3473
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3473
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓسے پوچھا: کیاآپ نے رسول اللہ ﷺ سےمرض طاعون کے متعلق کچھ سناہے؟ حضرت اسامہ ؓنے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا، لہذا جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پھیلے جہاں تم رہتے ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔‘‘ راوی حدیث ابو نضر نے کہا: ’’صرف طاعون سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ طاعون ایک وبائی مرض ہے جو سخت درد ناک اور جلن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے بغلوں میں ورم آتا ہے پھر چاروں اطراف سیاہ سبز ہو جاتی ہیں۔ دل گھبراتا ہے قے آنا شروع ہو جاتی ہے بالآخر اس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے بنی اسرائیل پر عذاب کی شکل میں اس کا ظہور ہوا البتہ اس امت کے لیے گناہوں کا کفارہ ہے۔ 2۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہو وہاں سے کسی دوسری جگہ راہ فراراختیار کرتے ہوئےنہیں جانا چاہیے البتہ بغرض تجارت حصول علم اور جہاد وغیرہ کے لیے نکلنا جائز ہے راوی حدیث ابو نضر کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ جب تمہارا نکلنا صرف طاعون سے فرار کے لیے ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ یعنی جس نکلنے سے منع کیا گیا ہے وہ محض فرار کے طور پر وہاں سے بھاگنا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نےبیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر اورعمر بن عبیداللہ کےمولیٰ ابوالنضر نے، ان سےعامر بن سعد بن ابی وقاص نےبیان کیا اور انہوں نے (عامرنے) اپنے والد (سعد بن ابی وقاص) کواسامہ بن زید ؓ سےیہ پوچھتے سنا تھاکہ طاعون کےبارے میں آپ نے آنحضرت ﷺ سےکیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نےفرمایا، طاعون ایک عذاب ہےجوپہلے بنی اسرائیل کےایک گروہ پربھیجا گیا تھا یا آپ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کےمتعلق تم سنو(کہ وہاں طاعو ن پھیلا ہواہے) تووہاں نہ جاؤ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ ابوالنضر نےکہا یعنی بھاگنے کےسوا اور کوئی غرض نہ ہو تومت نکلو۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہواکہ تجارت، سود اگری، جہاد یا دوسری غرضوں کےلیے طاعون زدہ مقامات سے نکلنا جائز ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سےمنقول ہےکہ وہ طاعون کےزمانےمیں اپنے بیٹوں کو دیہات میں روانہ کردیتے۔ حضرت عمروبن عاص نےکہا جب طاعون آئے توپہاڑوں کی کھائیوں، جنگلوں، پہاڑوں کی چوٹیوں میں پھیل جاؤ۔ شاید ان صحابہ کویہ حدیث نہ پہنچی ہوگی۔ حضرت عمر شام کوجارہےتھےمعلوم ہواکہ وہاں طاعون ہے، واپس لوٹ آئے۔لوگوں نے کہا اللہ کی تقدیر سےبھاگتےہیں۔ حضر ت عمر نے جواب دیا کہ ہم اللہ ک تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہےہیں۔ طاعون میں پہلے شدید بخار ہوتا ہےپھر بغل یاگردن میں گلٹی نکلتی ہے اور آدمی مرجاتا ہے۔ طاعون کی موت شہادت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Plague was a means of torture sent on a group of Israelis (or on some people before you). So if you hear of its spread in a land, don't approach it, and if a plague should appear in a land where you are present, then don't leave that land in order to run away from it (i.e. plague)."