تشریح:
1۔ قریش نسب کے اعتبار سے بلند مرتبہ اور مکان کے اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتے تھے، نیز قبائل عرب ، مجاور حرم ہونے کی وجہ سے ان کی بہت تعظیم کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تواکثرعرب انتظار میں تھے کہ آپ کی قوم، یعنی قریش آپ کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں۔ جب فتح مکہ ہوا اور قریش مسلمان ہوگئے تو لوگ بھی فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ چونکہ قریش کودیگر قبائل عرب پر فضیلت حاصل ہے اور وہ امامت و امارت میں تمام عرب پر سبقت رکھتے ہیں، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے پیچھے چلیں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں۔ مطلب یہ ہے کہ قریش کی شان وشوکت جودور جاہلیت میں تھی، اسلام اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ وہ اسلام لانے کے بعدسردار ہی رہیں گے جیسے وہ زمانہ کفر میں قائدین تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے: یہ خبر امر(حکم) کے معنی میں ہے، چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے مت بڑھو، جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خبر اپنے ظاہر معنی پر ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:649/6) 2۔ اس حدیث کے آخری جملے کے معنی متعین کرنے میں بھی اختلاف ہے:بعض نے کہا ہے کہ جو شخص امارت کا حریص نہ ہو اور سوال کے بغیر اگر اسے حاصل ہوجائے تو اس سے کراہت زائل ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا۔ بعض نے کہاہے کہ جب امارت سپرد ہوجائے گی تو پھر اس سے کراہت کرنا جائز نہیں۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:6/648) 4۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شرافت نسبی، علم کے بغیر عزت و احترام کے لائق نہیں۔ اصل شرافت تو علم دین حاصل کرنے سے ملتی ہے، پھر دینی معاملات میں رائے زنی کرنا نری جہالت ہے۔ جومسلمان عالم دین اور فقیہ ہوں وہی عنداللہ شریف ہیں۔ دینی فقاہت سے مراد کتاب و سنت کی فقاہت ہے۔