تشریح:
1۔ اس حدیث میں یمن والوں اور بکریوں والوں کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ بکریوں میں عجز و انکسار زیادہ ہوتا ہے، ان کے چرانے والوں میں بھی یہ صفات سرایت کرجاتی ہیں۔ 2۔ اہل یمن لڑائی کے بغیر مسلمان ہوئے تھے۔ انھی راہ راست پر لانے کے لیے کوئی مشقت نہیں اٹھانا پڑی جبکہ اہل مشرق کے خلاف جنگیں لڑی گئیں نقصان اٹھانے کے بعدیہ لوگ مسلمان ہوئے۔ ایک حدیث میں ہے:’’تمہارے پاس اہل یمن آئیں گے جن کے دل نرم اور گداز ہوں گے۔اسی لیے ایمان اہل یمن اور حکمت ودانائی بھی اہل یمن کی قابل اعتبار ہے اورکفر کا مرکز مشرق کی جانب ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:190(52)یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور کی بات ہے۔ ہر زمانے میں ہر یمنی کے لیے یہ فضیلت نہیں ہے۔ حدیث کے الفاظ کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے، اس کے باوجود یمن میں بڑے بڑے محدث پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے کتاب وسنت کی اشاعت میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔ 3۔ کعبے کا چہرہ مشرق کی جانب ہے کیونکہ اس طرف دروازہ ہے، لہذا یمن اس کے یمین میں اور شام اس کے شمال میں ہے۔ 4۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں یمن اور شام کی وجہ تسمیہ لکھی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒنے اس کی وجہ تسمیہ کے دیگر اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔ ان میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یمن، یمن بن قحطان کی وجہ سے یمن اور شامل، سام بن نوح کی وجہ سے شام کہلایا۔ سام اصل میں شام تھا، جب اسے عربی میں منتقل کیا گیا تو شام بن گیا۔ (فتح الباري:651/6)