تشریح:
1۔ کیفیت عددی کی دوقسمیں ہیں: ایک تونمازوں کی تعداد، دوسرے نماز میں رکعات کی تعداد۔ پہلی قسم کے متعلق وضاحت تو حدیث اسرا میں موجود ہے کہ پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں، پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ نمازوں کو برقرار رکھا گیا۔ اس حدیث میں نماز کی فرضیت کے وقت تعداد رکعات کے متعلق بتایاگیا ہے کہ جب نماز فرض ہوئی تھی تو ہرنماز کی دو دورکعات تھیں، پھرحضر کی نماز میں دو، دورکعات کا اضافہ کردیاگیا۔ البتہ ابن اسحاق ؒ کی بیان کردہ روایت میں مغرب کی نماز کا استثنا ہے۔ گویا صلاۃ مغرب شروع ہی سے تین رکعاتھیں، اس کی دورکعات نہیں تھیں۔ (مسند احمد:273/6) ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ ابتداء ميں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو چاررکعات فرض ہوگئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر چھوڑدی گئی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3935) محدث ابن خزیمہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی تفصیلی روایت بایں الفاظ نقل کی ہے: ابتداء سفروحضر میں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپ کو سکون واطمینان نصیب ہواتو صلاۃ حضرمیں دو، دورکعت کا اضافہ کردیاگیا اور صلاۃ فجر کو طول قراءت کی وجہ سے یونہی رہنے دیا گیا، اسی طرح مغرب چونکہ وترالنہار ہے۔ اس لیے اس میں بھی اضافہ نہیں کیاگیا۔ (صحیح ابن خذیمة:157/1، حدیث:305) ایک روایت میں ہے کہ نماز اولاً تو دو، دورکعت ہی فرض ہوئی تھی، پھر سفر کے لیے تو باقی اسی طرح رہی، البتہ حضر کی نماز کو پورا کردیا گیا۔ راوی حدیث امام زہری ؒ نے اپنے شیخ حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کیا کہ پھر حضرت عائشہ ؓ دوران سفر میں نماز پوری کیوں پڑھتی تھیں؟انھوں نے جواب دیا کہ وہ بھی حضرت عثمان ؓ کی طرح تاویل کرتی تھیں۔ (صحیح البخاري، تقصیر الصلاة، حدیث:1090) حضرت عروہ ؒ کے جواب سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے تاویلاً مقیم بن کر اتمام فرمایا، نہ کہ مسافر رہتے ہوئے اتمام کا عمل فرمایا، لہذا ان کے عمل اورروایت میں کوئی تضاد نہیں۔ دوران سفر میں قصر واجب ہے یا عزیمت یا رخصت؟ اس کے متعلق کتاب التقصیر الصلاة میں بحث ہوگی۔ امام بخاری ؒ کا اس مقام پر حدیث عائشہ ؓ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نماز کی ابتدائی فرضیت کی نوعیت مقدار رکعات کے لحاظ سے سفروحضر دونوں حالتوں میں دو، دورکعات ہی تھی، اس کے بعد حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اورسفر کی نماز دو، دورکعات ہی باقی رہی۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگرمباحث امام بخاری ؒ نے آئندہ بیان کیے ہیں، لہذا ہم بھی وہاں اپنی گزارشات پیش کریں گے۔ واضح رہے کہ تعداد رکعات کے متعلق حضرت عائشہؓ نے اجتہاد سے کام نہیں لیا، کیونکہ اس میں قیاس کا کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ بات یاتو انھیں رسول اللہ ﷺ سے معلوم ہوئی یا کسی اور صحابی سے، اس لیے حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت فرمادی کہ یہ روایت معناً مرفوع ہے۔ (فتح الباري:602/1) 2۔ حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ ایک روایت کےخلاف ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ کی زبان حق ترجمان سے حضر میں نماز کی چار، چار رکعات سفر میں دو، دورکعات اورخوف میں ایک رکعت فرض کی گئی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہ تعارض اس طرح ر فع کیا کہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں نمازوں کو پوراکردیا گیا، اس کے بعد جب سفر کی مشکلات درپیش ہوئیں تو مسافر کے لیے دیگرمراعات کے ساتھ ایک رعایت نماز کے متعلق بھی دے دی گئی کہ اسے قصر سے پڑھا جاسکتا ہے، کیونکہ ہجرت کے چوتھے سال آیت قصر نازل ہوئی ہے۔ اس توجیہ کے پیش نظر حدیث عائشہ ﷺ کا یہ مطلب ہے کہ انجام اور نتیجے کے اعتبار سے تخفیف کے بعد سفر کی نماز چاررکعت کے بجائے دورکعت ہوگئی۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ فرضیت کے وقت ہی سے اس کی دورکعات تھیں جنھیں برقرار رکھا گیا۔ (فتح الباري:602/1) لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں، کیونکہ یہ تاویل حضرت عائشہ ؓ کے صریح الفاظ کے خلاف ہے۔ پھر اس توجیہ میں ایک ایسا قیاس کیا گیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں، وہ یہ کہ آیت قصہ ہجرت کے چوتھے سال نازل ہوئی، لہذا ان چار سال کی مدت میں نماز سفر بھی چاررکعات ہی ہوں گی۔ اس قیاس پر کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت واضح ہے کہ اضافہ حضر کی نماز میں ہوا، سفر کی نماز میں اضافہ نہیں ہوا، بلکہ اسے جوں کا توں برقراررکھا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہجرت کے بعد حضر کی نمازیں چار چار رکعات مقرر کردی گئیں اورسفر میں دو رکعت ہی رہیں۔ واللہ أعلم۔