مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3504.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا۔ پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیاتو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کہا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزاء جمع کردے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کردیا۔ پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے پروردگار!تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔‘‘ راوی حدیث ہشام کے علاوہ جب کسی دوسرے (عبدالرزاق) نے اس حدیث کو بیان کیا تو خشیت کے بجائے خوف کے لفظ بیان کیے۔
تشریح:
اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا کفر ہے لیکن مذکورہ شخص نے اللہ کی قدرت کے متعلق شک کا اظہار کیا اس کے باوجود اسے معاف کردیا گیا کیونکہ یہ شک شدت غم کی وجہ سے تھا۔ کسی کو کافر قرار دینے کے لیے یہ ایک مانع ہے جس طرح شدت خوشی بھی کسی کو کافر قرار دینے کے لیے ایک رکاوٹ ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ ایک آدمی جنگل میں اپنی سواری زادِراہ سمیت گم کر بیٹھا جب اچانک وہ اسے ملی تو شدت خوشی کی بنا پر اس نے کہا: (اللهم أنت عبدي وأنا ربك) ’’یعنی اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حدیث:6960(2747) بظاہر یہ کفریہ کلمہ ہے لیکن شدت خوشی کی بنا پر اس سے سر زد ہوا اس لیے اس سے اللہ نے درگزر کیا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3349
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3481
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3481
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3481
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا۔ پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیاتو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کہا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزاء جمع کردے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کردیا۔ پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے پروردگار!تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔‘‘ راوی حدیث ہشام کے علاوہ جب کسی دوسرے (عبدالرزاق) نے اس حدیث کو بیان کیا تو خشیت کے بجائے خوف کے لفظ بیان کیے۔
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا کفر ہے لیکن مذکورہ شخص نے اللہ کی قدرت کے متعلق شک کا اظہار کیا اس کے باوجود اسے معاف کردیا گیا کیونکہ یہ شک شدت غم کی وجہ سے تھا۔ کسی کو کافر قرار دینے کے لیے یہ ایک مانع ہے جس طرح شدت خوشی بھی کسی کو کافر قرار دینے کے لیے ایک رکاوٹ ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ ایک آدمی جنگل میں اپنی سواری زادِراہ سمیت گم کر بیٹھا جب اچانک وہ اسے ملی تو شدت خوشی کی بنا پر اس نے کہا: (اللهم أنت عبدي وأنا ربك) ’’یعنی اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حدیث:6960(2747) بظاہر یہ کفریہ کلمہ ہے لیکن شدت خوشی کی بنا پر اس سے سر زد ہوا اس لیے اس سے اللہ نے درگزر کیا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نےبیان کیا، کہا ہم سے ہشام نےبیان کیا، کہا ہم کومعمر نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمان نے اور انہیں ابوہریرہ نےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ایک شخص بہت گناہ کیاکرتاتھا جب اس کی موت کاوقت قریب آیا تواپنے بیٹوں سےاس نےکہا کہ جب میں مرجاؤں تومجھے جلا ڈالنا پھر میری ہڈیوں کوپیس کرہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگر میرے رب نےمجھے پکڑلیا تومجھے اتنا سخت عذاب کرےگا جوپہلے کسی کوبھی اس نےنہیں کیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو (اس کووصیت کےمطابق) اس کےساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ اللہ تعالی نے زمین کوحکم فرمایا کہ اگر ایک ذرہ بھی کہیں اسکے جسم کا تیرے پاس ہے تو اسےجمع کرکےلا۔ زمین حکم بجا لائی اوروہ بندہ اب (اپنے رب کے سامنے) کھڑا ہواتھا۔ اللہ تعالیٰ نےدریافت فرمایا، تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نےعرض کیا اے رب! تیرے ڈر کی وجہ سے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی۔ ابوہریرہ کےسوا دوسرے صحابہ نے اس حدیث میں لفظ خشیتك کےبدل مخافتك کہا ہے(دونوں لفظوں کامطلب ایک ہی ہے)
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتےہیں کہ الفاظ لئن قدر اللہ علی اس شخص نےغلبہ و دہشت کی بنا پرزبان سےنکالے جب کہ وہ حالت غفلت ونسیان میں تھا اسی لیے یہ الفاظ اس کےلیے قابل مؤاخذہ نہیں ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A man used to do sinful deeds, and when death came to him, he said to his sons, 'After my death, burn me and then crush me, and scatter the powder in the air, for by Allah, if Allah has control over me, He will give me such a punishment as He has never given to anyone else.' When he died, his sons did accordingly. Allah ordered the earth saying, 'Collect what you hold of his particles.' It did so, and behold! There he was (the man) standing. Allah asked (him), 'What made you do what you did?' He replied, 'O my Lord! I was afraid of You.' So Allah forgave him. " Another narrator said "The man said, Fear of You, O Lord!"