تشریح:
1۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بڑی ہمشیر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے لڑکے ہیں۔ ان دونوں بہنوں کے باپ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مائیں مختلف ہیں، یعنی یہ دونوں پدری بہنیں ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں اولاد نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رکھا اور ان کی تعلیم وتربیت کاخصوص اہتمام کیا۔ آپ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ناراضی اور پھر معافی کا واقعہ تو حدیث میں مذکور ہے۔ 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبہم نذر مانی تھی، اس لیے ایک دوغلام آزاد کرنے پر ان کا دل مطمئن نہ تھا، اس لیے انھوں نے چالیس غلام آزاد کیے، البتہ اگرآپ نذر متعین کرلیتیں تو وہی غلام آزادکرنے سے آپ فارغ ہوجاتیں۔ صحیح مسلم میں ہے:’’نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النذر، حدیث:4253(1645) شاید انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو، بصورت دیگر وہ ایسا نہ کرتیں اور نہ چالیس غلام ہی آزاد کرتیں۔ بہرحال آپ نے کسی قسم کی تفصیل کے بغیر مبہم نذر مانی تھی۔ اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کیے۔ 3۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے چند قریشیوں کوحضرت عائشہ ؓکے پاس سفارش کے لیے بھیجا، یعنی وہ اس قابل تھے کہ ان سے سفارش کرائی جاتی تھی۔واللہ أعلم۔