تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قریشی تھے اورآپ پر قرآن مجید کا نزول اسی مادری زبان کے مطابق ہواتھا تاکہ پہلے آپ خود اسے بخوبی سمجھیں، پھر دوسرے لوگوں کو احسن طریقے سے سمجھا سکیں۔ 2۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلکھوانے سے پہلے قرآن مجید لکھا ہوا موجودتھا اور اس کانسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس موجود تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ قرآنی صحیفے بھیج دیں جو ان کے پاس ہیں، ہم مصاحف لکھنے کے بعد انھین واپس کردیں گے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی نقلیں تیار کرواکر اطراف عالم میں بھیج دیں۔ قرآن مجید لکھنے کی ہدایت کی اور فرمایا:اگرتمہارا کہیں قرآنی رسم الخط کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کے محاورے کے مطابق تحریرکرنا، چنانچہ ان کا لفظ تابوت کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے تابوۃ لکھنا چاہتے تھے جبکہ قریش کے ہاں اس کا رسم الخط تابوت تھا، تو اسی محاورے کے مطابق لکھا گیا۔ 3۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے۔ انھوں نے کتاب الفضائل القرآن میں بھی اس حدیث پر اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے :قرآن قریش اور عرب کے محاورے کے مطابق نازل ہوا۔ (فتح الباري:659/6) مصاحف لکھنے کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیفہ واپس کر دیا گیا اور باقی ذاتی قسم کے صحائف جلادیے گئے۔ (عمدة القاري:257/11)