تشریح:
1۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو عید گاہ میں جانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے حتی کہ جو عورتیں اپنی طبعی مجبوری کی وجہ سے نماز پڑھنے سے معذور ہیں وہ بھی عید گاہ میں حاضر ہوں، لیکن پردے کااہتمام ضروری ہے۔ اگرکسی کے پاس چادر نہیں تو وہ اپنی کسی بہن سے مستعار لے لے یابڑی چادر میں کسی دوسری عورت کے ساتھ چلی جائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عید گاہ میں جاناضروری بھی ہے لیکن بے پردہ جانے کی بھی اجازت نہیں۔ جب راستے میں جاتے ہوئے اس قدر اہتمام ہے تو نماز کپڑے کے بغیر کس طرح درست ہوگی، یعنی جب نماز میں حاضری کے لیے کپڑا ضروری ہے تونماز میں بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ہوگی۔ وھوالمقصود۔ امام بخاری ؒ کااستدلال اس طور پر ہوسکتاہے کہ جب حائضہ کے لیے کپڑے اور چادر کا اس قدر التزام ہے، حالانکہ اس نے نماز نہیں پڑھنی ہے توطاہرہ جس نے نماز پڑھنی ہے اس کے لیے کپڑے کا اہتمام بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ استدلال اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں سوال کرنا اچھی عادت نہیں، لیکن نماز پڑھنے کے لیے کپڑوں کے سوال کو جائز قراردیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لیے کپڑے کا ہونا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے روایت کے آخرمیں ایک تعلیق بیان کی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں محدث ابن سیرین ؒ نے صراحت کی ہے کہ انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو سناہے۔ امام بخای ؓ نے اس تعلیق سے ان حضرات کی تردید کی ہے جن کے خیال کے مطابق محدث ابن سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ سے سماع نہیں کیا، بلکہ اس کی بہن حضرت حفصہ ؓ سے حدیث سنی ہے۔ امام بخاری کی پیش کردہ پہلی سند میں محمد بن سیرین ؒ نے اس روایت کو"عن" کے صیغے سے بیان کیاتھا۔ شبہ تھا کہ شاید براہ راست انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو نہیں سنا۔ اس تعلیق سے اس شبے کو دورفرمادیا۔ (فتح الباري:605/1) 3۔ حفصہ بنت سیرین ؒ کہتی ہیں کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتی تھیں۔ مجھے کسی نے حضرت ام عطیہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کو عیدین کے موقع پر عید گاہ جانے کی تاکید کرتے تھے۔ جب ہماری ملاقات ام عطیہؓ سے ہوئی تو میں نے براہ راست ان سے سوال کیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔ میں نے سوال کیا: آیا حائضہ عورت بھی عید گاہ جائے؟ انھوں نے فرمایا: وہ حج کے موقع پر عرفات اوردیگر مقامات مقدسہ میں جاتی ہیں تو عید گاہ جانے میں کیوں ممانعت ہو؟ (صحیح البخاری، الحیض، حدیث: 324) 4۔ امام بخاریؒ آئندہ 15 ابواب میں سترعورۃ کا مسئلہ بیان فرمائیں گے جن میں مختلف احوال وظروف کے اعتبار سے نماز میں کپڑوں کے استعمال کے متعلق وضاحت کی جائے گی۔ کپڑے کم ہوں یا تنگ ہوں تو کیا کیاجائے؟ مرد اورعورت کے لیے الگ الگ احکام کیاہیں؟ اس باب میں جن احادیث کی طرف امام بخاری ؒ نے اشارہ کیا ہے، وہ ان کی شرائط صحت کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انھیں موصولاً نہیں لائے، صرف حدیث ام عطیہ ؓ کو بطور استیناس اس مقام پر بیان فرمایا ہے۔ اس حدیث میں ایام والی عورتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہوں۔ اس سے مراد جماعت نماز میں شرکت کرنا نہیں، بلکہ صرف عید گاہ میں حاضر ہوناہے۔ اگرچہ شہود کا استعمال شرکت جماعت اور اقتدار کے لیے بھی حدیث میں استعمال ہواہے، تاہم اس مقام پر یہ معنی نہیں ہیں، کیونکہ ایام والی عورتیں نماز پڑھنے سے معذور ہیں۔ 5۔ ایک عورت کا دوسری سے چادرمستعار لینا یا ایک بڑی چادر میں دوعورتوں کا اکٹھے جانابعض حضرات کے نزدیک یہ اہتمام صرف راستے میں جاتے وقت راہ گیروں سے پردے کی وجہ سے ہے، اس کاسترعورۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ انسان سے شرم اس درجہ ضروری کہ عید گاہ میں بے پردہ سے جانا ممنوع ٹھہرا، لیکن دوران نماز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر سترعورۃ کا اہتمام نہ کرنا، یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے حیا زیادہ کرنی چاہیے۔ واللہ أعلم۔