قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ قِصَّةِ زَمْزَمَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3523.07. حَدَّثَنَا زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَخْزَمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنِي مُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الْقَصِيرُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ قَالَ قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِإِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قُلْنَا بَلَى قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ كُنْتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلًا قَدْ خَرَجَ بِمَكَّةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقُلْتُ لِأَخِي انْطَلِقْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ كَلِّمْهُ وَأْتِنِي بِخَبَرِهِ فَانْطَلَقَ فَلَقِيَهُ ثُمَّ رَجَعَ فَقُلْتُ مَا عِنْدَكَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ وَيَنْهَى عَنْ الشَّرِّ فَقُلْتُ لَهُ لَمْ تَشْفِنِي مِنْ الْخَبَرِ فَأَخَذْتُ جِرَابًا وَعَصًا ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ فَجَعَلْتُ لَا أَعْرِفُهُ وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ وَأَشْرَبُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَأَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ فَقَالَ كَأَنَّ الرَّجُلَ غَرِيبٌ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَانْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ وَلَا أُخْبِرُهُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ لِأَسْأَلَ عَنْهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُخْبِرُنِي عَنْهُ بِشَيْءٍ قَالَ فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ فَقَالَ أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ يَعْرِفُ مَنْزِلَهُ بَعْدُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ انْطَلِقْ مَعِي قَالَ فَقَالَ مَا أَمْرُكَ وَمَا أَقْدَمَكَ هَذِهِ الْبَلْدَةَ قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنْ كَتَمْتَ عَلَيَّ أَخْبَرْتُكَ قَالَ فَإِنِّي أَفْعَلُ قَالَ قُلْتُ لَهُ بَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ خَرَجَ هَا هُنَا رَجُلٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَرْسَلْتُ أَخِي لِيُكَلِّمَهُ فَرَجَعَ وَلَمْ يَشْفِنِي مِنْ الْخَبَرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَاهُ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّكَ قَدْ رَشَدْتَ هَذَا وَجْهِي إِلَيْهِ فَاتَّبِعْنِي ادْخُلْ حَيْثُ أَدْخُلُ فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ أَحَدًا أَخَافُهُ عَلَيْكَ قُمْتُ إِلَى الْحَائِطِ كَأَنِّي أُصْلِحُ نَعْلِي وَامْضِ أَنْتَ فَمَضَى وَمَضَيْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ اعْرِضْ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ فَعَرَضَهُ فَأَسْلَمْتُ مَكَانِي فَقَالَ لِي يَا أَبَا ذَرٍّ اكْتُمْ هَذَا الْأَمْرَ وَارْجِعْ إِلَى بَلَدِكَ فَإِذَا بَلَغَكَ ظُهُورُنَا فَأَقْبِلْ فَقُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقُرَيْشٌ فِيهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَقَالُوا قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَقَامُوا فَضُرِبْتُ لِأَمُوتَ فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ وَيْلَكُمْ تَقْتُلُونَ رَجُلًا مِنْ غِفَارَ وَمَتْجَرُكُمْ وَمَمَرُّكُمْ عَلَى غِفَارَ فَأَقْلَعُوا عَنِّي فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحْتُ الْغَدَ رَجَعْتُ فَقُلْتُ مِثْلَ مَا قُلْتُ بِالْأَمْسِ فَقَالُوا قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَصُنِعَ بِي مِثْلَ مَا صُنِعَ بِالْأَمْسِ وَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ وَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ بِالْأَمْسِ قَالَ فَكَانَ هَذَا أَوَّلَ إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ رَحِمَهُ اللَّهُ

مترجم:

3523.07.

 (م) ابو حمزہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں حضرت ابن عباس  ؓنے فرمایا: کیا میں تمھیں حضرت ابو ذر ؓ کے اسلام کی خبر نہ دوں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں قبیلہ غفار کا ایک شخص تھا۔ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا: تم جا کر ان سے ملاقات کرو اور ان سے گفتگو کر کےمجھے حقیقت حال سے آگاہ کرو، چنانچہ وہ گئے اور انھوں نے آپ ﷺ سے ملاقات کی۔ پھر واپس آئے تو میں نے ان سے کہا: بتاؤ کیا خبر لائےہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھی بات کا حکم دیتا ہے اور بری بات سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا: اتنی سی خبرسےتو میری تسلی نہیں ہوتی۔ آخر میں نے ایک سامان کی تھیلی اور ایک لاٹھی اٹھائی اور خود مکہ کی طرف روانہ ہوا لیکن وہاں آپ کو نہ پہنچانتا تھا اور یہ بھی مناسب خیال نہ کیا کہ آپ کے متعلق کسی سے دریافت کروں، لہٰذا میں زمزم کا پانی پیتا اور مسجد میں آیا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور کہنے لگے: تم مسافر معلوم ہوتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں (میں مسافرہوں)۔ انھوں نے کہا: میرے ساتھ گھر چلو، چنانچہ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ نہ تو وہ مجھ سے کوئی بات کرتے اور نہ میں ہی ان سے کچھ بیان کرتا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں کعبہ میں گیا تاکہ میں کسی سے آپ ﷺ کے متعلق دریافت کروں لیکن کوئی شخص مجھ سے آپ کے متعلق کچھ سامان بیان نہ کرتا۔ پھر اتفاق سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا میری طرف سے گزر ہوا تو انھوں نے کہا: کیا ابھی تک اس شخص کو اپنا ٹھکانا نہیں ملا؟ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے کہا: نہیں! انھوں نے پھر کہا: تم میرے ساتھ چلو۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا: کہ تمھارا کام کیا ہے؟ اور اس شہر میں کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا: اگر آپ میری بات کو پوشیدہ رکھیں تو میں آپ سے بیان کرتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں ایسا ہی کروں گا۔ میں نے ان سے کہا: ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ یہاں ایک شخص ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں تو میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ ان سے بات کریں مگر وہ لوٹ آیا اور تسلی بخش کوئی خبر نہ لایا، چنانچہ میں نے چاہا کہ میں خود ان سے ملوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: مطمئن رہو کہ تم اپنے مقصود کو پہنچ گئے ہو۔ میں اب انھی کے پاس جارہا ہوں۔ تم بھی میرے ساتھ چلے آؤ۔ جہاں میں جاؤں وہاں تم بھی چلے آنا۔ اگر میں کسی ایسے شخص کو دیکھوں جس سے نقصان کا اندیشہ ہو تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہو جاؤں، گویا میں اپنا جوتا درست کر رہا ہوں مگر آپ وہاں سے چلتے رہیں، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے روانہ ہوئے تو میں بھی ان کے ہمراہ چلا حتی کہ میں اور وہ دونوں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: مجھ پر اسلام پیش کیجیے۔ آپ ﷺ نے مجھ پر اسلام پیش کیا تو میں فوراً ہی مسلمان ہو گیا، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اپنے اسلام کو چھپاؤ۔ اپنے شہر لوٹ جاؤ اور جب تمھیں ہمارے غلبے کی خبر پہنچے تو واپس آجانا۔‘‘ میں نے عرض کیا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں تو لوگوں میں اسلام کا اظہار پکارپکار کر کروں گا، چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت اللہ گئے جہاں قریش تھے اور ان سے کہا: اے گروہ قریش! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہے۔ یہ سنتے ہی انھوں نے کہا کہ اس بے دین کی خبر لو، چنانچہ وہ اٹھے اور مجھے خوب زدوکوب کیا تاکہ میں مرجاؤں۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا اور مجھ پر گر پڑے اور کافروں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: تمھاری خرابی ہو! قبیلہ غفار کے ایک آدمی کو مارتے ہو، حالانکہ یہ قبیلہ تمھاری تجارت گاہ اور گزر گاہ ہے؟ تب وہ لوگ میرے پاس سے ہٹے پھر جب میں دوسرے روز صبح کو اٹھا تو واپس آکر پھر وہی بات کہی جو گزشتہ روز کہی تھی تو انھوں نے پھر کہا: اس بے دین کی طرف کھڑے ہو جاؤ۔ پھر میرے ساتھ پہلے روز جیسا سلوک کیا گیا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا تو مجھ پر جھک گئے اور انھوں نے ویسی ہی گفتگو کی جو گزشتہ کل کی تھی۔ انھوں نے (حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: یہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کی ابتداتھی۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔