تشریح:
1۔حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام جندب تھا۔ اسلام میں داخل ہونے والے پانچویں شخص ہیں۔ ان کے بھائی کا نام انیس تھا جو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔ قبیلہ غفار کی نسبت سے ان کی سرگزشت بیان کی گئی ہے۔ اعلان نبوت کے طویل عرصے بعد مسلمان ہوئے۔ انھوں نے اسلام کا اظہار ڈنکے کی چوٹ کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایسا کرنے سے روکا بھی تھا۔ بہرحال انھیں آثار وقرائن سے معلوم ہوگیا کہ آپ کا یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا نعرہ حق سن کر خاموش ہوگئے اور انھیں اس پر کوئی ملامت نہیں کی۔ 2۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی سے نہیں پوچھتے تھے کیونکہ قریش ہر اس شخص کو تکلیف پہنچاتے تھے جو آپ کا ارادہ کرتا اور اس لیے بھی مارتے تھے کہ کہیں ان کا دین پھیل نہ جائے ،اس لیے وہ کسی سائل کی رہنمائی نہیں کرتے تھے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کو جمع ہی ہونے دیتے تھے،دھوکا دے کر اسے واپس ہونے پر مجبور کردیتے تھے۔ 3۔واضح رہے کہ قریش کے لوگ تجارت کے لیے سال میں دومرتبہ شام کے علاقے میں جایا کرتے تھے اور راستے میں مکہ ومدینہ کے درمیان قبیلہ غفار رہتا تھا۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کو خبردار کیا کہ اگرتم نے اس کو مارڈالا تو قوم غفار برہم ہوجائے گی ،پھر تمہاری تجارت متاثر ہوگی اور وہاں سے گزرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔اس طرح قریش نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان بخشی کی۔4۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد حرام میں رہتے ہوئے کئی دن تک صرف زمزم کے پانی سے گزارا کرتے رہے اور اس بابرکت پانی نے ان کو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیا۔اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ زمزم کا عنوان قائم کیا ہے۔درحقیقت زمزم کے پانی پر اس طرح گزارا کرتے رہے اور اس بابرکت پانی نے ان کو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیا۔اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ زمزم کا عنوان قائم کیا ہے۔درحقیقت زمزم کے پانی پر اس طرح گزارا کرنا بھی حضرت ابوزرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس طرح پانی نوش کرنے سے خوب موٹے تازے ہوگئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے واقعی اس بابرکت پانی میں یہ تاثیر رکھتی ہے کہ اسے پینے سے کھانا کھانے کی ضرورت نہیں رہتی۔5۔دورحاضر میں حکومت سعودیہ نے زمزم کا بہت وسیع نظام کررکھاہے کہ یہ ہرحاجی مرد ہو یا عورت جب چاہے آسانی کے ساتھ تازہ اور ٹھنڈا زمزم پی سکتا ہے۔ اب تو مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں بھی آب زمزم کے ٹھنڈے اورتازہ کولر پڑے ہیں۔نمازی جب چاہے اپنے دائیں بائیں سے پانی پی سکتا ہے۔واقعی حکومت سعودیہ کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے جس کے لیے جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں۔اللہ تعالیٰ اس حکومت کو مزید استحکام اور ترقی عنایت فرمائے۔ہم نے وہاں قیام کے دوران میں ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ یمنی حضرات ایک ریال کے عوض آب زمزم کی چھوٹی سی پیالی بھر کردیتے تھے۔