تشریح:
1۔اس حدیث میں ذکر کردہ مثال مسئلہ ختم نبوت سمجھانے کے لیے ہے تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے کہ قصر نبوت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی آمد سے مکمل ہوچکاہے اگرچہ اس میں نقب زنی کرنے والے بے شمار پیداہوئے۔برصغیر میں انگریز کے گماشتے اور ان کے پروردہ غلام احمد قادیانی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔اللہ ہمارے اکابر کو اپنے ہاں اجر جزیل عطا فرمائے،انھوں نے اس کی زندگی میں منہ توڑ جواب دیا۔مولانامحمدحسین بٹالوی اور شیر پنجاب مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات تو ناقابل فراموش ہیں۔مسئلہ ختم نبوت کے لیے مولانا محمد عبداللہ معمار امرتسری کی تالیف’’محمدیہ پاکٹ بک بجواب احمدیہ پاکٹ بک‘‘ کامطالعہ بہت مفید رہے گا جسے مکتبہ سلفیہ لاہور نے شائع کیاہے۔2۔واضح رہے کہ وہ اینٹ مکان کے ایک کونے میں رکھی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اینٹ مکان کے لیے بنیادی حیثیت نہیں رکھتی کہ اس کے بغیر مکان کا وجود ہی باقی نہ رہے بلکہ اس اینٹ سے مکان کی خوبصورتی میں اضافہ ہواہے۔اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس کے بغیر مکان ناقص تھا کیونکہ ہر نبی کی شریعت اپنے زمانے کے اعتبار سے کامل تھی۔مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت تمام شریعتوں سے اکمل اور احسن ہے جبکہ پہلے انبیاء ؑ کی شریعتیں کامل اور حسن تھیں۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:683/6)