تشریح:
1۔کنیت،کنایہ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد وہ لفظ ہے جو انسان کی شخصیت پر صراحت کے ساتھ دلالت نہ کرے،اس سے اشارہ ہوسکے۔عربی زبان میں کنیت وہ ہے جس سے پہلے اب یا ام ہو۔عربوں کے ہاں کنیت رکھنامشہور تھا۔بعض لوگ کنیت سے مشہور ہوتے اور ان کا نام غیر معروف ہوتا،جیسے:ابوطالب اور ابولہب وغیرہ۔اور بعض پر ان کے نام کا غلبہ ہوتا،کنیت غیر معروف ہوتی مثلاً:عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی کنیت ابوحفص غیرمعروف ہے۔بہرحال کنیت ،نام اور لقب سب علم ہیں جن سے انسان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی۔اس کی دووجوہات بیان کی جاتی ہیں:الف۔آپ کے فرزند ارجمند کا نام قاسم تھا، اس لیے آپ اس کنیت سے مشہور ہوئے۔ب۔آپ لوگوں میں اللہ کامال تقسیم کرتے تھے،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘ (المستدرك علی الصحیحین:660/2، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اس بنا پر آپ کو ابوالقاسم کہا جاتاتھا۔ 3۔احادیث میں اس کی ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ مخصوص تھی۔اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الادب میں بیان ہوں گے۔بإذن اللہ تعالیٰ۔