باب: اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اوراشجع قبیلوں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The mention of the tribes of Aslam, Ghifar, Muzaina, Juhaina, and Ashja')
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3539.
حضرت ابوبکرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ میں سے ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی ہے جو حاجیوں کا سامان چوری کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ اگر بنو تمیم، بنو عامر، اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو کیا وہ خسارے میں رہیں گے؟‘‘ اقرع بن حابس نے کہا: ہاں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!وہ قبائل ان قبائل سے بہت بہتر ہیں۔‘‘
تشریح:
زمانہ جاہلیت میں جہینہ، مزینہ، اسلام اور غفار کے قبیلے، بنوتمیم، بنواسد، بنوعبداللہ بن غطفان اور بنوعامر بن صعصعہ وغیرہ قبائل سے کم درجہ خیال کیے جاتے تھے۔ جب اسلام آیاتو انھوں نے اسے قبول کرنے میں پہل کی۔ اس شرف فضیلت میں بنوتمیم وغیرہ قبائل سے یہ لوگ آگے بڑھ گئے۔ غفار قبیلے سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بھائی حضرت انیس غفاری سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ جہینہ سے عقبہ بن عامر جہنی پہلے مسلمان ہوئے۔ مزینہ قبیلے سے عبداللہ بن مغفل مزنی، ایاس بن ہلال اور ان کے بیٹے قرہ بن ایاس نے پہلے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح اشجع قبیلے سے پہلے اسلام لانے والے نعیم بن مسعود اشجعی ہیں۔ بہرحال ان پانچوں قبائل جہینہ، مزینہ، اسلام غفار اور اشجع کا تعلق مضر سے ہے اور ان کے مقابلے میں تمیم، اسد، غطفان اور ہوازن بھی مضر سے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:664/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3382
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3516
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3516
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3516
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
مذکورہ پانچوں قبیلے عربوں میں بڑے زور آورتھے اور دوسرے قبائل سے پہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی ہے ۔ایسے بہادر اور جفاکش قبائل کے اسلام لانے سے عرب میں اشاعت اسلام کا دروازہ کھل گیا،پھر دوسرے قبائل خوشی خوشی اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے کیونکہ عوام الناس اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلنے والے ہوتے ہیں۔(فتح الباری 6/664)
حافظ ابن حجر(رح) فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں قبیلے عرب میں بڑے زوردار قبیلے تھے اور دوسرے قبائل سے پہلے یہی اسلام لائے، اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو فضیلت عطا فرمائی۔ ایسے زور آور قبائل کے اسلام قبول کرنے سے عرب میں اشاعت اسلام کا دروازہ کھل گیا اور دوسرے چھوٹے قبائل خوشی خوشی اسلام قبول کرتے چلے گئے کیوں کہ عوام اپنے بڑوں کے قدم بہ قدم چلنے والے ہوتے ہیں۔ سچ ہے ﴿ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴾النصر :2
حضرت ابوبکرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ میں سے ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی ہے جو حاجیوں کا سامان چوری کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ اگر بنو تمیم، بنو عامر، اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو کیا وہ خسارے میں رہیں گے؟‘‘ اقرع بن حابس نے کہا: ہاں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!وہ قبائل ان قبائل سے بہت بہتر ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
زمانہ جاہلیت میں جہینہ، مزینہ، اسلام اور غفار کے قبیلے، بنوتمیم، بنواسد، بنوعبداللہ بن غطفان اور بنوعامر بن صعصعہ وغیرہ قبائل سے کم درجہ خیال کیے جاتے تھے۔ جب اسلام آیاتو انھوں نے اسے قبول کرنے میں پہل کی۔ اس شرف فضیلت میں بنوتمیم وغیرہ قبائل سے یہ لوگ آگے بڑھ گئے۔ غفار قبیلے سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بھائی حضرت انیس غفاری سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ جہینہ سے عقبہ بن عامر جہنی پہلے مسلمان ہوئے۔ مزینہ قبیلے سے عبداللہ بن مغفل مزنی، ایاس بن ہلال اور ان کے بیٹے قرہ بن ایاس نے پہلے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح اشجع قبیلے سے پہلے اسلام لانے والے نعیم بن مسعود اشجعی ہیں۔ بہرحال ان پانچوں قبائل جہینہ، مزینہ، اسلام غفار اور اشجع کا تعلق مضر سے ہے اور ان کے مقابلے میں تمیم، اسد، غطفان اور ہوازن بھی مضر سے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:664/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے سنا، انہوں نے اپنے والد سے کہ اقرع بن حابس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ سے ان لوگوں نے بیعت کی ہے کہ جو حاجیوں کا سامان چرایا کرتے تھے یعنی اسلم اور غفار اور مزینہ کے لوگ، محمد بن ابی یعقوب نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں عبدالرحمن نے جہینہ کا بھی ذکر کیا، شعبہ نے کہا کہ یہ شک محمد بن ابی یعقوب کو ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : بتلاؤ اسلم، غفار، مزینہ، اور میں سمجھتاہوں کہ جہینہ کو بھی کہا یہ چاروں قبیلے بنی تمیم، بنی عامر اور اسد اور غطفان سے بہتر نہیں ہیں؟ کیا یہ (مؤخرالذکر) خراب اور برباد نہیں ہوئے؟ اقرع نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ ان سے بہتر ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): Al-Aqra' bin Habis said to the Prophet (ﷺ) "Nobody gave you the pledge of allegiance but the robbers of the pilgrims (i.e. those who used to rob the pilgrims) from the tribes of Aslam, Ghifar, Muzaina." (Ibn Abi Ya'qub is in doubt whether Al-Aqra' added. 'And Juhaina.') The Prophet (ﷺ) said, "Don't you think that the tribes of Aslam, Ghifar, Muzaina (and also perhaps) Juhaina are better than the tribes of Bani Tamim, Bani Amir, Asad, and Ghatafan?" Somebody said, "They were unsuccessful and losers!" The Prophet (ﷺ) said, "Yes, by Him in Whose Hands my life is, they (i.e. the former) are better than they (i.e. the latter)." Abu Hurairah (RA) said, "(The Prophet (ﷺ) said), '(The people of) Bani Aslam, Ghifar and some people of Muzaina (or some people of Juhaina or Muzaina) are better in Allah's Sight (or on the Day of Resurrection) than the tribes of Asad, Tamim, Hawazin and Ghatafan.' "