تشریح:
1۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد احادیث سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ یہ مہر نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر نہیں تھی،فرشتوں نے شق صدر کے وقت علامت کے طور پر دونوں کندھوں کے درمیان لگا دی تھی۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:687/6)2۔وہ مہر نبوت زرالحجلہ کی طرح تھی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، المرضیٰ، حدیث:5670)زرالحجلہ کی تفسیر دوطرح سے کی گئی ہے۔الف۔حجلہ ایک پرندہ ہے جو کبوتر کی مانند ہوتاہے۔اس کی چونچ اورپاؤں سرخ ہوتے ہیں۔اس کاگوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔زر،اس کے انڈے کو کہتے ہیں۔اس معنی کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرنبوت آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھی جو(مقدار میں) کبوتر کے انڈے جتنی اور (رنگت میں) آپ کے جسم جیسی تھی۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6084(2344)ب۔حجلہ دلہن کی ڈولی کو کہتے ہیں جو خوبصورت کپڑوں سے سجائی جاتی ہے۔اس کے بڑے بڑے بٹن ہوتے ہیں،یعنی مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی جو کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل میں اس پردے پر لگائی جاتی ہیں جو مسہری پر لٹکایا جاتاہے۔اکثر علماء نے اس آخری معنی کو راجح قراردیاہے۔3۔حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،نیز مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا شرف بھی ملا۔میں نے اس علامت،یعنی مہرنبوت کودیکھا جو آپ کے بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس تھی جومقدار میں بند مٹھی کے برابر تھی۔اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹا تھا۔(مسند أحمد:82/5)علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں:بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہرنبوت آپ کے بائیں کندھے کے پاس ایک ابھری ہوئی چیز تھی۔اس کی مقدار کم ہونے کی صورت میں کبوتر کے انڈے کے برابر زیادہ ہونے کی شکل میں بند مٹھی جتنی تھی۔(فتح الباري:688/6)اس سلسلے میں حضرت ابوزید عمرو بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک مرتبہ کمر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے کہا:میں نے آپ کی کمر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو اچانک میری انگلیاں مہر نبوت سے جالگیں۔راوی کہتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا:مہرنبوت کیا چیز تھی؟ توانھوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔(مسند أحمد:77/5)4۔حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک تفصیلی روایت مروی ہے فرماتے ہیں :میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حاضر ہوا جب آپ کے ہاں لوگوں کا جمگھٹا تھا۔میں نے یونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت چکر لگایا تو آپ میرا مقصد سمجھ گئے۔آپ نے اپنی پشت مبارک سے چادر اُتاری تو میں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مٹھی کے برابر مہر نبوت کو دیکھا جس کے چاروں طرف تل تھے جوگویا سوئی کے برابر معلوم ہوتے تھے،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تجھے بھی بخش دے۔‘‘لوگوں نے مجھے کہاکہ(آپ خوش نصیب ہیں کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے دعا فرمائی ہے۔میں نے کہا:ہاں! تم سب کے لیے بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ مغفرت کی دعا کریں اپنے لیے بھی اور اہل ایمان مرد وخواتین کے لیے بھی۔(محمد:47/19 و صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346) 5۔علامہ سہیلی ؒنے لکھا ہے کہ آپ شیطانی وسوسوں سے محفوظ تھے،اس لیے مہرنبوت کو بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس ثبت کیاگیا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سے شیطان کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔(فتح الباري:689/6)