تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے پسند تھی کہ وہ کم ازکم آسمانی دین پر عمل پیراہونے کے دعویدار تھے اور یہ بھی مقصود تھا کہ شاید وہ اس سلوک سے اسلام کے قریب آجائیں،لیکن جب آپ ان کے اسلام سے مایوس ہوگئے اور ان پر بدبختی غالب آگئی توآپ کو بہت سے معاملات میں ان کی مخالفت کا حکم ہوا۔صوم یوم عاشوراء استقبال قبلہ،حائضہ عورت سے میل جول اور یوم السبت اسی بنا پر تھی۔اور مشرکین کے ہاں بت پرستی کاچرچا تھا،اس لیے ان کی مخالفت فرماتے لیکن یہ مخالفت ان معاملات میں ہوتی تھی جن میں سنت ابراہیمی کا پتہ نہ چلتا تھا۔جب آپ کو کسی معاملے کے متعلق پتہ چل جاتا کہ ایسا کرنا سنتِ ابراہیم ؑ ہے تو مشرکین کی موافقت کی پروا نہیں کرتے تھے،اس کی مثالیں مناسک حج سے واضح ہیں۔ 2۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں میں کنگھی کرکے پیشانی پر چھوڑدیتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔(مسند أحمد:215/3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے پہلے خوشبو لگاتے تو اس کی چمک دیر تک آپ کی مانگ میں برقراررہتی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اب بھی اس چمک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں دیکھ رہی ہوں جو احرام کے وقت لگائی تھی۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1538)