تشریح:
1۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب آپ حضر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ کوفہ آئے تھے۔(صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6029)ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے مجھے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3759)حسن خلق یہ ہے کہ فضائل کو اختیار کیاجائے اور رذائل ترک کردیے جائیں۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق کریم تو قرآن مجید تھا۔ان احادیث کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عادتاً اور تکلفاً فحش گو نہ تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفحش گوئی کی عادت نہ تھی اور نہ کبھی تکلف ہی سے فحش گوئی کی تھی۔نہ آپ بازاروں میں آواز بلند کرتے تھے اور نہ بُرائی کا بدلہ ہی بُرائی سے دیتے تھے بلکہ معاف کردیتے اور درگزر فرماتے تھے۔(فتح الباري:702/6)غصے کے وقت آپ صرف یہ بتاتے:اسے کیا ہوا اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔کسی کا نام لے کر اسے عیب کی نشاندہی نہ کرتے بلکہ اجتماعی طور پر یوں کہتے:ان لوگوں کو کیا ہوا یہ ایسا کرتے ہیں۔(فتح الباري:703/6)