تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوکاموں سے ایک کو اختیار کرنے کی دوقسمیں ہیں:ایک یہ کہ مذکورہ اختیار کفار کی طرف سے دیاجاتا،اس اختیار میں کسی گناہ کا اختیار بھی ہوسکتاہے،ایسی صورت میں آپ گناہ کا کام نہ کرتے مثلاً:اللہ کی نافرمانی یا قطع رحمی کی کسی صورت میں اختیار نہ کرتے۔دوسری قسم یہ ہے کہ اختیار اللہ یا اہل ایمان کی طرف سے ہوتا،مثلاً:عبادت میں مبالغہ اور میانہ روی کا اختیار دیا جاتا تو آپ میانہ روی کو اختیارکرتے کیونکہ جو مجاہدہ یا مبالغہ انسان کو ہلاکت تک پہنچادے یا دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے توآپ اسے اختیار نہ کرتے۔2۔اس حدیث سے معلوم ہواکہ آسان کام کو اختیار کرنا چاہیے۔3۔حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں اور اللہ کے حق کو بے کار نہ چھوڑیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن خطل اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کردیا تھا،یہ ذاتی انتقام کانتیجہ نہ تھا بلکہ دینی حرمات کی پامالی ان کے قتل کی محرک تھی۔واللہ أعلم۔