تشریح:
1۔اس حدیث سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف ثابت کرنا ہے جو آپ کو عام لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔وہ وصف یہ ہے کہ آپ کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن دل بیدار رہتا تھا۔اس وصف میں دوسرے انبیائے کرام ؑ آپ کے شریک ہیں،یعنی ان کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن دل بیداررہتے تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس بات کی صراحت ہے۔2۔اس وصف پر ایک مشہور اعتراض ہے کہ اگر نیند کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بیدار رہتا تھا تو لیلة التعریس میں آپ کی نماز فجر کیوں قضا ہوگئی تھی؟اس کا جواب حسب ذیل ہے:©۔طلوع شمس کا تعلق آنکھ سے ہے کیونکہ یہ محسوسات سے ہےمعقولات کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل محسوسات کا ادراک نہیں کرتا، اس لیے طلوع آفتاب کاآپ کو پتہ نہ چل سکا۔©۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امور شرعیہ کے اجراء کے لیے نسیان طاری ہوتا تھا جیسا کہ آپ متعدد مرتبہ نماز میں بھولے تھے۔لیلۃ تعریس میں صبح کی نماز کا فوت ہونا بھولنے کے باعث تھا جیسا کہ بیداری کی حالت میں بھولنے سے نماز فوت ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیند کی حالت میں بھی بھلوادیا تاکہ قضا کا حکم جاری ہو۔اس سے معلوم ہواکہ لیلۃ التعریس میں نماز صبح کے فوت ہوجانے میں یہ حکمت تھی کہ نماز کی قضا کا حکم مشروع ہو۔نسیان کا طاری ہونا اس کا سبب تھا۔واللہ اعلم۔3۔واضح رہے کہ لیلۃ التعریس سے مراد وہ رات ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگا کر سوگئے لیکن حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نیند نے آلیا،وہ بھی بیدارنہ ہوسکے۔جب دن چڑھ آیا تودھوپ کی شدت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی تو آپ نے وہاں سے کچھ آگے جاکر نماز فجر ادا کی۔(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:595) ©۔قند مکرر:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ کے خنداں رخ انور،حسین وجمیل قدوقامت،بے مثال خدوخال،بے نظیر چال ڈھال،باوقار وپرکشش وجاہت،وشخصیت کا جو عکس الفاظ کے پیرائے میں ہم تک پہنچایا ہے وہ ایک ایسے انسان کا تصور دلاتاہے جو ذہانت وفطانت ،صبرواستقامت ،شجاعت وسخاوت ،امانت ودیانت،فصاحت وبلاغت ،جمال ووقار ،انکسار وتواضع اورعالی ظرفی وفرض شناسی جیسے اوصاف حمیدہ سے متصف تھا۔ہم چاہتے ہیں کہ حضرت ام مبعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پذیر حلیہ مبارک جن الفاظ سے بیان کیا ہے ان کا ترجمہ صاحب"الرحیق المختوم" کی زبانی قدرے تصرف کے ساتھ ہدیہ قارئین کریں۔ان کا جامع تذکرہ پیش خدمت ہے:"چمکتا رنگ،تابناک چہرہ،نہ اتنے نحیف ونزار کہ دیکھنے میں عیب دار لگیں اور نہ اس قدر بھاری بھرکم کہ توند نکلی ہوئی ہوخوبصورت ساخت،جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہواپیکر،سرمگیں آنکھیں ،دراز پلکیں ،بھاری آواز،چمکدار اور لمبی گردن ،گھنی ڈاڑھی ،باریک اور باہم پیوستہ ابرو،خاموش ہوں تو باوقار ،گفتگو کریں تو گویا منہ سے پھول جھڑیں ،دورسے دیکھنے میں سب سے زیادہ تابناک اور پرجمال ،قریب سے دیکھیں تو سب سے خوبصورت اور شیریں ادا،گفتگو میں چاشنی،بات واضح اوردوٹوک ،نہ مختصر نہ فضول ،انداز ایسا کہ لڑی سے موتی جھڑرہے ہیں،درمیانہ قد،نہ پست قامت کہ نگاہ میں نہ جچے،نہ زیادہ لمبا کہ ناگوار لگے،دوشاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح جو انتہائی تروتازہ اور خوش منظر لگے،رفقاء آپ کے گردحلقہ بنائے ہوئے کچھ فرمائیں توتوجہ سے سنتے ہیں،کوئی حکم دیں تولپک کر بجالاتے ہیں،مطاع ومکرم ،نہ ترش روا اورنہ یاوہ گو۔(المستدرك للحاکم:9/3)علامہ ابن کثیر ؒ کہتے ہیں:ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ کئی ایک طرق سے مروی ہے جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں۔واللہ أعلم۔