تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے معجزات کے بجائے علامات کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ معجزات اور کرامات دونوں کی شامل ہو۔معجزے میں نبی کو جھٹلانے والوں کے لیے چیلنج ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کام کردکھایا ہے جو خرق عادت ہے اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔2۔اس عنوان کے تحت معجزات ،کرامات،آئندہ پیش آنے والے واقعات اور قیامت کی علامات بیان ہوں گی۔3۔دور نبوت میں خرق عادت پیش آنے والے واقعات کو معجزہ اور قبل از نبوت عادت کے خلاف واقعات کو ارہاص کہا جاتا ہے۔4۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے پانی میں برکت ہوگئی۔یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ قلیل پانی سے چالیس آدمی سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے مشکیزے اور برتن بھی بھرلیے لیکن مشکوں کا پانی ذرا بھربھی کم نہ ہوا۔5۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے،چنانچہ خیبر سے نکلنے کےبعد،حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد،تبوک کو جاتے ہوئے اور غزوہ جیش الامراء(غزوہ موتہ) میں اس قسم کے واقعات پیش آئے،یعنی ایک ہی نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کا نکلنا،پتھر سے پانی نکلنے کی نسبت زیادہ وزنی ہے کیونکہ پتھر سے پانی نکل آنا خلاف عادت نہیں ،البتہ گوشت اور خون کے درمیان سے پانی کا نکلنا عام عادت کے خلاف ہے۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:715/6)