قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3571. حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ فَأَدْلَجُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ عَرَّسُوا فَغَلَبَتْهُمْ أَعْيُنُهُمْ حَتَّى ارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ لَا يُوقَظُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ فَاسْتَيْقَظَ عُمَرُ فَقَعَدَ أَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ وَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا قَالَ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ ثُمَّ صَلَّى وَجَعَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكُوبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ فَقُلْنَا لَهَا أَيْنَ الْمَاءُ فَقَالَتْ إِنَّهُ لَا مَاءَ فَقُلْنَا كَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ قَالَتْ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ فَقُلْنَا انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ وَمَا رَسُولُ اللَّهِ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا حَتَّى اسْتَقْبَلْنَا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ بِمِثْلِ الَّذِي حَدَّثَتْنَا غَيْرَ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا مُؤْتِمَةٌ فَأَمَرَ بِمَزَادَتَيْهَا فَمَسَحَ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا وَهِيَ تَكَادُ تَنِضُّ مِنْ الْمِلْءِ ثُمَّ قَالَ هَاتُوا مَا عِنْدَكُمْ فَجُمِعَ لَهَا مِنْ الْكِسَرِ وَالتَّمْرِ حَتَّى أَتَتْ أَهْلَهَا قَالَتْ لَقِيتُ أَسْحَرَ النَّاسِ أَوْ هُوَ نَبِيٌّ كَمَا زَعَمُوا فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا

مترجم:

3571.

حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ ’’اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟‘‘ اس نے عرض کیا: مجھے جنابت لاحق ہوگئی تھی۔ آپ نے اسے پاک مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا تو اس نے نماز پڑھی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند سواروں کے ہمراہ آگے بھیج دیا(تاکہ ہم پانی تلاش کریں)۔ ہم بہت سے پیاسے تھے۔ اس دوران میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت دو بڑی مشکوں کے درمیان اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے ہے۔ ہم نے اسے کہا: پانی کہاں ہے؟اس نے جواب دیاکہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے دوبارہ پوچھا کہ تیرے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟اس نے کہا کہ ایک دن اور ایک رات کاسفر ہے۔ ہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لے کہا تو اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ کیاہوتا ہے؟بہرحال ہم نے اس کی کوئی پیش نہ چلنے دی اور اسے چلنے پر مجبور کردیا یہاں تک کہ ہم اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس نے آپ سے وہی گفتگو کی جو ہم سے کی تھی، البتہ اتنی بات مزید بتائی کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے۔ آپ ﷺ نے اس کی دونوں مشکوں کو کھولنے کا حکم دیا اور ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے ان سے خوب سیرہوکر پانی پیا اور ہمارے پاس جتنے مشکیزے اور برتن تھے سب بھر لیے لیکن اس سے اپنے اونٹوں کو پانی نہ پلایا۔ اس کے باوجود اس کی مشکیں اس قدر پانی سے بھری معلوم ہوتی تھیں کہ پھٹنے کے قریب تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جوکچھ تمہارے پاس ہے اسے میرے پاس لاؤ۔ ‘‘ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لاکر جمع کردی گئیں۔ جب وہ اپنے قبیلے کے پاس گئی تو کہنے لگی: آج میں سب سے بڑے جادوگر کے پاس سے آئی ہوں یا وہ واقعی نبی ہے جیسا کہ اس کے پیروکار کہتے ہیں، بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے باعث اس گاؤں کے رہنے والوں کو ہدایت دی، چنانچہ وہ خود بھی مسلمان ہوگئی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔