تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے سوال کا مقصد یہ ہے کہ تم دیکھتے نہیں ہو، ایک واضح اور بدیہی امر کے متعلق سوال کر رہے ہو، تمھیں سوچنا چاہیے تھا کہ اگر ایک کپڑے میں نماز جائز نہ ہوتی تو میں ضرور انکارکردیتا، لیکن نہ تو میں نے انکار کیا اور نہ اس معاملے کی تفتیش ہی کی کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والا فاقد ثوب ہے یا واجد ثوب، اس سلسلے میں وسعت اورتنگی کا فرق بھی نہیں۔ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا جواز ہے، کیونکہ نماز میں کپڑوں کی تعداد پر انحصار نہیں، بلکہ مدار سترعورۃ پر ہے، البتہ مستحب ہے کہ بشرط گنجائش ایک سے زائد کپڑے استعمال کیے جائیں۔علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے سوالیہ انداز میں جواب دیا لیکن دراصل آپ تنگی کے ایام کی خبر دینا چاہتے ہیں اور فحوائے کلام سے اصل سوال کا جواب بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ جب سترعورۃ واجب ہے اور نماز کا ادا کرنا بھی ضروری ہے اورتم میں سے ہر ایک کے لیے کپڑے بھی نہیں ہوتے، ایسے حالات میں تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک کپڑے میں نماز جائز ہے۔ اگرجائز نہ ہوتی تو میں اس کی وضاحت کردیتا۔ (إعلام الحدیث:349/1) 2۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر ؓ سے بھی کسی نے یہی سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ نے لباس کے معاملے میں وسعت دی ہے تو انھیں بھی وسعت سے کام لینا چاہیے، وہ اس طرح کہ لوگ اپنے جسم پر اللہ کے دیے ہوئے کپڑے استعمال کریں، یعنی انھیں چاہیے کہ وہ ازار اور چادر میں ازاراورقمیص میں، ازار اورقبا میں، پائجامہ اور چادر میں، پائجامہ اور قمیص میں، پائجامہ اورقبا میں، جانگیہ اور قبا میں، نیز جانگیہ اور قمیص میں نما ز پڑھیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: میں گمان کرتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ نے اسی کے ساتھ جانگیہ اورچادر میں نماز پڑھنے کے متعلق بھی فرمایا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:365)