تشریح:
1۔اس حدیث سے امام بخاری ؒنے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیوں کا آغاز کیا ہے۔2۔ حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ سے اکثر فتنوں کے متعلق سوال کیا کرتے تھے تاکہ ان سے محفوظ رہا جا کسے ۔ صحابہ کرام ؓ میں انھیں رسول اللہ ﷺ کا راز دان کہا جاتا تھا۔ انھوں نے گمان یا اندازے سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی سے معلوم کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہیں گے۔مسلمانوں میں کسی قسم کا فتنہ و فاسد رونما نہیں ہو گا۔ ان کے بعد فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا۔واقعی رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس وقت سے امت مسلمہ تنزلی کا شکار ہے۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ نے آنے والے حالات کی خبر یں دی ہیں جو بعینہ پوری ہوئیں یہ بھی آپ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے۔3۔اہل و عیال کے فتنے سے مراد ہے کہ انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے اور ہمسائے کا فتنہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہمسایوں سے بغض حسد رکھتا ہے یا ان پر فخر و مباہات کرتا ہے یا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی کرتا ہے۔حدیث میں گھر مال اور ہمسائے کا ذکر ہے اور ان فتنوں کا کفارہ بھی تین چیزیں ہیں چنانچہ نماز اور روزہ فعلی عبادت ہے صدقہ و خیرات مالی عبادت ہے اور امر بالعمروف نہی عن المنکر قولی عبادت ہے یہ تینوں قسم کی عبادات بالترتیب تینوں قسم کی کوتاہیوں کا کفارہ ہیں۔(فتح الباري:739/6)