تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں نمازی کے لیے بحالت نماز سترپوشی کی ایک قسم بیان فرمائی ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کیونکہ نمازی کے لیے دوران نماز میں بسااوقات جسم کے کسی ایسے حصے کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جسے نماز کے علاوہ عام حالات میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض اوقات نماز میں کسی ایسے حصے کو ظاہر کرنا ہوتا ہے جسے عام حالات میں عورتوں کے لیے مردوں سے چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں کہ بحالت نماز ان کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ یہ حکم حق نماز کی وجہ سے ہے، جبکہ مرد حضرات عام حالات میں اپنے کندھوں کو ننگارکھ سکتے ہیں۔ دوسری صورت کی مثال چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم ہے کہ عورت کے لیے عام حالات میں اجنبی مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز نہیں، لیکن نماز کی حالت میں عورت کے لیے ان کا چھپانا ضروری نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس نوعیت کی سترپوشی اللہ کاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں تن تنہا بھی بیت اللہ کا عریاں ہوکر طواف نہیں کیاجاسکتا۔ جیسا کہ اکیلے آدمی کو اختیاری حالات میں ننگے ہوکر نماز پڑھنےکی اجازت نہیں۔ اس بحث کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے ایک رسالے میں بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے جس کا ہم نے اردو ترجمہ بعنوان’’مسلمان عورت کا پردہ اور اس کا لباسِ نماز‘‘ کیاہے۔ 2۔ حافظ ا بن حجر ؒ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی تاکید جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے اورجن احادیث میں ممانعت ہے وہ کراہت تنزیہی پر محمول ہے، لیکن امام احمد ؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کندھوں پر کپڑا ڈالے بغیر نماز جائز نہیں، گویا انھوں نے اس کو شرط صحت صلاۃ قراردیاہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن ترک واجب کی وجہ سے گناہکار ہوگا۔ (فتح الباري:611/1) علامہ کرمانی ؒ کہتے ہیں کہ بظاہر ممانعت کا تقاضا تو تحریم ہی ہے مگر اجماع جواز ترک پر ہوچکاہے، کیونکہ اصل مقصود تو سترعورۃ ہے، وہ کسی بھی طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:18/2) علامہ کرمانیؒ کا یہ اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے اس موقف سے اختلاف کیاہے۔ علامہ خطابی ؒ نے عدم وجوب پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کا ایک کنارہ کسی زوجہ محترمہ پر تھا اور وہ سورہی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ کندھوں پر ڈالا جاسکتا اور نہ اتنا چھوٹا ہی تھا کہ اسے بطور تہہ بند ہی استعمال کیا جاسکتا۔ اگرکندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوتا تو دوسرے کنارے سے انھیں ڈھانپا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دوران نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔ (إعلام الحدیث:250/1) حافظ ابن حجر ؒ خطابی ؒ کا استدلال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ محل نظر ہے۔ (فتح الباري:612/1) بظاہر امام بخاری ؒ کے مسلک میں تفصیل ہے کہ کپڑاگربڑا ہوتو اسے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے اور اگرتنگ ہوتو اسے تہبند استعمال کیاجائے، کندھوں پر ڈالنا ضروری نہیں۔ ان کا موقف امام احمد ؒ کے موقف سے مختلف ہے۔ امام احمد ؒ کندھوں کے ڈھانپنے کو صحت صلاۃ کے لیے شرائط قراردیتے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ صرف وجوب کے قائل ہیں اور اس وجوب کو بھی تنگی کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔ جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ علامہ کرمانی ؒ نے عنوان سے دوسری حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں مخالفت طرفین کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کندھوں پر کچھ ڈالا جائے گا، اس کے بغیر مخالفت طرفین نہیں ہوسکتی۔ (شرح الکرماني:19/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی تراجم بخاری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں: اس حدیث کی عنوان پر دلالت بایں طورہے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کا ایک دوسرے کے مخالف سمت ہونا ہی اس بات کا سبب ہے کہ کوئی کنارہ اس کے کندھوں پر ضرور ڈالا جائےگا۔حافظ ابن حجر ؒ جو امام بخاری ؒ کے رمزشناس ہیں، کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت اس انداز سے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مخالفت طرفین کے وقت کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے چاہیے کہ کندھوں پر کپڑا ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو اُلٹ لے۔ (مسند احمد:255/2) علامہ اسماعیلی ؒ اور ابونعیم ؒ نے بھی حسین کے طریق سے اسی طرح بیا ن کیاہے۔ (فتح الباري:611/1) مختصر یہ ہے کہ جب کپڑا اس قدر وسیع ہوکہ ستر پوشی کے بعد کندھوں کو ڈھانپاجاسکتا ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر کپڑا تنگ ہو کہ کندھوں کو چھپانے کے بعد ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتو ایسی حالت میں کندھوں کو کھلا رکھتے ہوئے تہ بند باندھ کر نماز پڑھ لینا بالاتفاق جائزہے۔ واللہ أعلم۔