تشریح:
1۔حضرت ابو ہریرہ ؓ نے دربار رسالت میں مدت اقامت تین سال بیان کی ہے حالانہ آپ چار سال رہے ہیں کیونکہ غزوہ خیبر کے موقع پر آپ تشریف لائے جو صفر سات ہجری میں ہوااور رسول اللہ ﷺ ربیع الاول گیارہ ہجری میں فوت ہوئے۔ شاید حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس مدت کو شمار کیا ہے جس میں وہ اس مبارک مجلس کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور اس مدت کو شامل نہیں کیا ۔جب رسول اللہ ﷺ کسی غزوے یا حج و عمرے کے سفر میں ہوتے تھے کیونکہ ان ایام میں وہ پابندی نہ ہوتی تھی۔2۔ اس حدیث کے آخر میں لفظ بارز آیا ہے اس کے کئی ایک معنی ہیں۔©جو لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے نمایاں طور پر حصہ لیں گے۔©اس سے مراد فارس کی زمین ہے فاکو باسے اور سین کو زاسے بدل دیا گیا ہے ©وہ لوگ مراد ہیں جو جنگلات اور پہاڑوں میں رہنے والے ہوں گے کیونکہ یہ مقامات زمین سے ابھرے ہوئے ہیں بعض لوگوں نے اسے بازر یعنی زاکوپہلے اور راکوبعد میں پڑھا ہے عجم اور ترک زبان میں بازر کہا جاتا ہے صحیح لفظ بارزہی ہے۔3۔اس قوم سے مراد کرد،دیلم اور اہل فارس ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ہلا کو اور چنگیز خان کے ہاتھوں ہونے والی تباہی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:745/6)