Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Al-Jihad (fighting tn Allah's Cause) is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
36.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے ذمے داری لیتا ہے جو اس کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلے۔ اسے گھر سے صرف اس بات نے نکالا کہ وہ مجھ (اللہ) پر ایمان رکھتا ہے اور میرے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے، تو میں اسے اس ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا، یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کروں گا۔ اور (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) اگر میں اپنی امت کے لیے اسے دشوار نہ سمجھتا تو کبھی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ بیٹھ رہتا۔ اور میری یہ آرزو ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔‘‘
تشریح:
1۔ اس سے پہلے شب قدر کا بیان تھا اور آئندہ باب قیام رمضان سے متعلق ہے دونوں ابواب میں گہری مناسبت تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درمیان میں جہاد کا باب قائم کر دیا یہ اس لیے کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے: ایک جہاد مع النفس اور دوسرا جہاد مع الکفار، پھر جہاد مع الکفار، جہاد مع النفس پر موقوف ہے۔ پہلے اپنے نفس سے جہاد کر کے اسے احکام شریعت کے تابع بنا لیا جائے۔ اس کے بعد جہاد مع الکفار ہوگا۔ قیام لیلۃ القدر میں جہاد مع النفس تھا، اس مناسبت سے جہاد مع الکفار کا ذکر کیا ہے۔ 2۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کی ذمے داری لی ہے۔ اگر شہادت مل گئی تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ اگر شہادت کا منصب نہ مل سکا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ (1) غنیمت ملنے کی صورت میں دنیا کا متاع اور آخرت کا اجر ملے گا۔ (2) اگر غنیمت نہ مل سکی تو اجر تام کے ساتھ واپس ہو گا۔ اجر اور غنیمت دونوں جمع ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ مجاہد فی سبیل اللہ دونوں سے محروم رہے ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ اگر مجاہد فی سبیل اللہ کو غنیمت ملی تو اسے دو ثلث اجر مل گیا۔ باقی ایک ثلث قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہے۔ اگر غنیمت نہیں ملی تو پورا اجر محفوظ رہے گا۔ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث:2497) 3۔ رمضان کے ابواب کے درمیان باب جہاد کو بیان کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ جہاد اگر رمضان میں ہو تو ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہےاگر شہادت مل جائے تو ﴿نُورٌ عَلَى نُورٍ﴾ 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کو ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے کیونکہ اللہ پر ایمان ہی جہاد کے لیے نکلنے کا باعث ہے، اس لیے یہ نکلنا دراصل ایمان باللہ ہی ہے کیونکہ سبب کا نام دینا عرب کے ہاں معروف ومتداول ہے۔ ( شرح الکرماني: 158/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
36
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
36
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
36
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
36
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے ذمے داری لیتا ہے جو اس کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلے۔ اسے گھر سے صرف اس بات نے نکالا کہ وہ مجھ (اللہ) پر ایمان رکھتا ہے اور میرے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے، تو میں اسے اس ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا، یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کروں گا۔ اور (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) اگر میں اپنی امت کے لیے اسے دشوار نہ سمجھتا تو کبھی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ بیٹھ رہتا۔ اور میری یہ آرزو ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے پہلے شب قدر کا بیان تھا اور آئندہ باب قیام رمضان سے متعلق ہے دونوں ابواب میں گہری مناسبت تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درمیان میں جہاد کا باب قائم کر دیا یہ اس لیے کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے: ایک جہاد مع النفس اور دوسرا جہاد مع الکفار، پھر جہاد مع الکفار، جہاد مع النفس پر موقوف ہے۔ پہلے اپنے نفس سے جہاد کر کے اسے احکام شریعت کے تابع بنا لیا جائے۔ اس کے بعد جہاد مع الکفار ہوگا۔ قیام لیلۃ القدر میں جہاد مع النفس تھا، اس مناسبت سے جہاد مع الکفار کا ذکر کیا ہے۔ 2۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کی ذمے داری لی ہے۔ اگر شہادت مل گئی تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ اگر شہادت کا منصب نہ مل سکا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ (1) غنیمت ملنے کی صورت میں دنیا کا متاع اور آخرت کا اجر ملے گا۔ (2) اگر غنیمت نہ مل سکی تو اجر تام کے ساتھ واپس ہو گا۔ اجر اور غنیمت دونوں جمع ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ مجاہد فی سبیل اللہ دونوں سے محروم رہے ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ اگر مجاہد فی سبیل اللہ کو غنیمت ملی تو اسے دو ثلث اجر مل گیا۔ باقی ایک ثلث قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہے۔ اگر غنیمت نہیں ملی تو پورا اجر محفوظ رہے گا۔ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث:2497) 3۔ رمضان کے ابواب کے درمیان باب جہاد کو بیان کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ جہاد اگر رمضان میں ہو تو ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہےاگر شہادت مل جائے تو ﴿نُورٌ عَلَى نُورٍ﴾ 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کو ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے کیونکہ اللہ پر ایمان ہی جہاد کے لیے نکلنے کا باعث ہے، اس لیے یہ نکلنا دراصل ایمان باللہ ہی ہے کیونکہ سبب کا نام دینا عرب کے ہاں معروف ومتداول ہے۔ ( شرح الکرماني: 158/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حرمی بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر نے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اس کو میری ذات پر یقین اور میرے پیغمبروں کی تصدیق نے (اس سرفروشی کے لیے گھر سے) نکالا ہے۔ (میں اس بات کا ضامن ہوں) کہ یا تو اس کو واپس کر دوں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ، یا (شہید ہونے کے بعد) جنت میں داخل کر دوں (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) اور اگر میں اپنی امت پر (اس کام کو) دشوار نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے ابواب میں نفاق کی نشانیوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ایمان کی نشانیوں کو شروع فرما رہے ہیں۔ چنانچہ لیلۃ القدر کا قیام جوخالصاً اللہ کی رضاکے لیے ہو۔ بتلایا گیا کہ وہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے حضرت امام کا مقصد ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں اور ان کی کمی وبیشی پر ایمان کی کمی وبیشی منحصرہے۔ پس مرجیہ وکرامیہ جوعقائد رکھتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں۔ لیلۃ القدر تقدیر سے ہے یعنی اس سال میں جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی تقدیرات کا علم فرشتوں کودیا جاتا ہے، قدر کے معنی حرمت کے بھی ہیں اور اس رات کی عزت قرآن مجید ہی سے ظاہر ہے، شب قدر رمضان شریف کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے جو ہرسال ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ قیام رمضان اور قیام لیلة القدر من الدین کے درمیان حضرت امام نے ’’جہاد‘‘کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی ایمان کا ایک جزو اعظم ہے۔ حضرت امام نے اپنی گہری نظر کی بنا پر جہاں اشارہ فرمایا ہے کہ جہاد مع النفس ہو (یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو) جیسا کہ رمضان شریف کے روزے اور قیام لیلۃ القدر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔ اور جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہوجائے تو نور علی نور ہے۔ حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تصدیق رسل سے مراد ان جملہ بشارتوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا ہے جو اللہ کے رسولوں نے جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ پاک نے دو ذمہ داریاں لی ہیں۔ اگراسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب و کتاب سب سے مستثنیٰ ہو گیا۔ وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگروہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے خود شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کرلیا ہے جو بہترین سودا ہے۔ حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں طریقہ کارحالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ آج کل قلبی جہاد بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The person who participates in (Holy battles) in Allah's cause and nothing compels him to do so except belief in Allah and His Apostles, will be recompensed by Allah either with a reward, or booty (if he survives) or will be admitted to Paradise (if he is killed in the battle as a martyr). Had I not found it difficult for my followers, then I would not remain behind any sariya going for Jihad and I would have loved to be martyred in Allah's cause and then made alive, and then martyred and then made alive, and then again martyred in His cause."