تشریح:
1۔ اس سے پہلے شب قدر کا بیان تھا اور آئندہ باب قیام رمضان سے متعلق ہے دونوں ابواب میں گہری مناسبت تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درمیان میں جہاد کا باب قائم کر دیا یہ اس لیے کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے: ایک جہاد مع النفس اور دوسرا جہاد مع الکفار، پھر جہاد مع الکفار، جہاد مع النفس پر موقوف ہے۔ پہلے اپنے نفس سے جہاد کر کے اسے احکام شریعت کے تابع بنا لیا جائے۔ اس کے بعد جہاد مع الکفار ہوگا۔ قیام لیلۃ القدر میں جہاد مع النفس تھا، اس مناسبت سے جہاد مع الکفار کا ذکر کیا ہے۔
2۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کی ذمے داری لی ہے۔ اگر شہادت مل گئی تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ اگر شہادت کا منصب نہ مل سکا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ (1) غنیمت ملنے کی صورت میں دنیا کا متاع اور آخرت کا اجر ملے گا۔ (2) اگر غنیمت نہ مل سکی تو اجر تام کے ساتھ واپس ہو گا۔ اجر اور غنیمت دونوں جمع ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ مجاہد فی سبیل اللہ دونوں سے محروم رہے ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ اگر مجاہد فی سبیل اللہ کو غنیمت ملی تو اسے دو ثلث اجر مل گیا۔ باقی ایک ثلث قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہے۔ اگر غنیمت نہیں ملی تو پورا اجر محفوظ رہے گا۔ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث:2497)
3۔ رمضان کے ابواب کے درمیان باب جہاد کو بیان کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ جہاد اگر رمضان میں ہو تو ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہےاگر شہادت مل جائے تو ﴿نُورٌ عَلَى نُورٍ﴾
4۔ اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کو ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے کیونکہ اللہ پر ایمان ہی جہاد کے لیے نکلنے کا باعث ہے، اس لیے یہ نکلنا دراصل ایمان باللہ ہی ہے کیونکہ سبب کا نام دینا عرب کے ہاں معروف ومتداول ہے۔ ( شرح الکرماني: 158/1)