باب: اس بیان میں کہ صرف ایک کپڑے کو بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا جائز و درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) with a single garment wrapped round the body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا کہ ملتحف متوشح کو کہتے ہیں۔ جو اپنی چادر کے ایک حصے کو دوسرے کاندھے پر اور دوسرے حصے کو پہلے کاندھے پر ڈال لے اور وہ دونوں کاندھوں کو ( چادر سے ) ڈھانک لیتا ہے۔ ام ہانی نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک چادر اوڑھی اور اس کے دونوں کناروں کو اس سے مخالف طرف کے کاندھے پر ڈالا۔
360.
حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ نے چادر کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے: پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔ تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔ اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔ امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔ لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔ تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔ تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه) کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔ نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:608/1) 2۔ علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1) کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔ حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔ آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔ حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ (شرح البخاري:21/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
353
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
355
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
355
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
355
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نماز میں کپڑا ستعمال کرنے کی مختلف صورتیں بیان کررہے ہیں:پہلی صورت یہی تھی کہ گردن پر تہ بند کی گرہ لگائی جائے۔یہ ایسے کپڑے کے متعلق ہدایت تھی جس میں لپیٹ لینے کی گنجائش نہ ہو۔اس باب میں ایک دوسری صورت بیان کررہے ہیں کہ اگر کپڑے میں لپیٹ لینے کی گنجائش ہو تو بغیر گرہ لگائے اسے دونوں کندھوں پر ڈال دیا جائے۔اس سلسلے میں مختلف تعبیرات منقول ہیں۔التحاف توشیخ ،مخالفت اوراشتمال وغیرہ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے ثابت کیا کہ تعبیرات کا یہ فرق محض لفظی ہے عمل کی صورتیں مختلف نہیں ہیں۔حاصل یہ ہے کہ کپڑے کے دائیں کنارے کوبائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیا جائے ،یاوہ کنارہ جو دائیں کندھے پر ہے،اسے بائیں بغل سے اور جوبائیں کندھے پر ہے اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیاجائے،یا وہ کنارہ جو دائیں کندھے پر ہے،اسے بائیں بغل سے اورجوبائیں کندھے پر ہے اسے دائیں بغل سے نکال کر دونوں کناروں کو سینے پر باندھ لیاجائے۔ابن بطال کہتےہیں کہ اس طرح چادر اوڑھنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ حالت نماز میں رکوع کے وقت بدن کے واجب الستر(جن کاچھپانا ضروری ہے) حصے پر نظر نہیں پڑے گی۔( شرح ابن بطال 20/2۔)اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ چادر رکوع اور سجدے کی حالت میں بدن سے نہیں گرے گی۔اس کے علاوہ ایک صورت اشتمال صما کی ہے جسے اشتمال یہود بھی کہتے ہیں۔اس کی صورت یہ ہے کہ چادر کو بدن کے اردگرد اس طرح لپیٹ دیاجائے کہ بوقت ضرورت کشف عورت کے بغیر ہاتھوں کو باہر نہ نکالا جاسکے۔اسے شریعت نے ناپسند کیاہے۔( عمدۃ القاری 266/3۔) حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود بیان کریں گے ۔یہاں اس روایت کو صرف التحاف کی تفسیر بیان کرنے کے لیے لایاگیا ہے۔
امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا کہ ملتحف متوشح کو کہتے ہیں۔ جو اپنی چادر کے ایک حصے کو دوسرے کاندھے پر اور دوسرے حصے کو پہلے کاندھے پر ڈال لے اور وہ دونوں کاندھوں کو ( چادر سے ) ڈھانک لیتا ہے۔ ام ہانی نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک چادر اوڑھی اور اس کے دونوں کناروں کو اس سے مخالف طرف کے کاندھے پر ڈالا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ نے چادر کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے: پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔ تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔ اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔ امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔ لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔ تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔ تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه) کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔ نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:608/1) 2۔ علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1) کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔ حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔ آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔ حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ (شرح البخاري:21/2)
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے اپنی روایت کردہ حدیث میں بیان کیا کہ ملتحف کے معنی متوشح کے ہیں اور متوشح اس شخص کو کہتے ہیں جو کپڑے کے دائیں کنارے کو بائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اور بائیں کنارے کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر کندھوں پر ڈال لے۔ اور دونوں کندھوں کو لپیٹ لینا (اشتمال) بھی یہی ہے۔
امام زہری نے کہا: حضرت ام ہانی ؓ نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک کپڑا کندھوں پر اس طرح لپیٹا کہ بایان کنارہ دائیں طرف اور دایاں کنارہ بائیں طرف نکل آیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے عمر بن ابی سلمہ ؓ سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو ام سلمہ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا، کپڑے کے دونوں کناروں کو آپ نے دونوں کاندھوں پر ڈال رکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Abi Salama (RA): I saw the Prophet (ﷺ) offering prayers in a single garment in the house of Um-Salama and he had crossed its ends around his shoulders.