تشریح:
1۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے سونا بھیجا جسے رسول اللہ ﷺ نے اقرع بن حابس عیینہ بن بدر، زید طائی اور علقمہ بن علاثہ میں تقسیم کردیا تو ذوالخوبصرہ نے آتے ہی اعتراض کردیا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344)یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی کیونکہ نبی ﷺ پر اعتراض کرنا اللہ کے غضب کودعوت دینا ہے۔ اس بد بخت نے بھی آپ کی تقسیم پر اعتراض کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی لہذا واجب القتل ٹھہرا۔ایک روایت میں ہے حضرت خالد بن ولید ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔(فتح الباري:755/6)لیکن رسول اللہ ﷺ نے کسی مصلحت کی بنا پر انھیں اجازت نہ دی البتہ آپ نے خود فرمایا:’’اگر میں انھیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح انھیں صفحہ ہستی سے مٹادوں گا۔‘‘ یعنی جب ا کی کثرت ہو جائے اور وہ مسلح ہو کر مسلمانوں سے تعرض کرنے لگیں تو انھیں قتل کرنا جائز ہو جائے گا جیسا کہ ایک روایت میں اس کا واضح اشارہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔(صحیح البخاري، حدیث:3344)اور ان کے قتل سے منع کرتے وقت یہ سبب موجود نہ تھا لہٰذا آپ نے قتل سے منع فرمادیا۔ پھر بعد میں حضرت علی کے عہد حکومت میں ان کا ظہور ہوا تو انھوں نے ان سے جنگ کی حتی کہ وہ کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور ذوالخو بصرہ جس نے رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا تھا اسے تلاش کیا گیا تو وہ لاشوں کے نیچے مراہواملا۔2۔اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا معجزہ واضح ہو تا ہے کہ آپ نے خبر دی امت کا باہم اختلاف ہو گا ان کے دو گروہ بن جائیں گے۔ پھر ان میں لڑائی ہو گی اور اس لڑائی میں وہ شخص قتل ہو گا جس نے رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کے اوصاف بیان کیے ہیں وہ مردود خارجی تھے جو بظاہر بہت دین دار تھے لیکن در حقیقت دین سے کوسوں دور تھے لیکن سر سری نظر سے دیکھنے میں بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آتے تھے ظاہر میں بڑے نماز پرہیزگار لیکن پرلے درجے کے بے دین چھوٹی چھوٹی بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾