تشریح:
1۔یہ دو حدیثیں ہیں پہلی حدیث کو حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مسروق ہیں۔ جبکہ دوسری حدیث کو ان سے بیان کرنے والے حضرت عروہ ؒ ہیں لیکن دونوں روایات میں کچھ اختلاف ہے پہلی روایت میں سیدہ کے رونے کا سبب آپ کا رسول اللھ ﷺ کو پہلے پہلے ملنے کو قرار دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں اسے سیدہ کے ہنسنے کا باعث قراردیا گیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو خفیہ طور پر تین باتیں بتائیں پہلی بات تو آپ کے انتقال کی تھی یہ تو ان کے رونے کا سبب تھا۔دوسری بات جنت میں ان کے سردار ہونے کی تھی جس کے سبب انھیں سرور لاحق ہوا اور آپ ہنس پڑیں۔ تیسری بات یہ تھی کہ اہل خانہ میں سب سے پہلے سیدہ وفات پائیں گی اور سب سے پہلے مجھ سے ان کی ملاقات ہوگی ۔یہ خبر ایک وجہ سے خوشی اور سرور کا باعث تھی جیسا کہ عروہ کی روایت میں ہے اور ایک وجہ سے غم کی خبر تھی جس وجہ سے آپ رونے لگیں ۔جیسا کہ مسروق کی روایت میں ہے اس طرح سے دونوں روایات کا اختلاف ختم ہو جاتا ہے علامہ سندھی کہتے ہیں شایدرسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کو دو مرتبہ بشارت سنائی ہو۔ ایک مرتبہ وفات کی خبر کے ساتھ ملا دیا۔جس سے ان پر رونا غالب آگیا اور دوسری مرتبہ بشارت سیادت کے ساتھ ملا دیا تو دونوں بشارتیں ہنسنے کا سبب بن گئیں اس طرح بھی دونوں روایات جمع ہو سکتی ہیں۔(حاشیہ سندھی:284/2)2۔ الغرض ان دونوں روایات میں دو معجزے بیان ہوئے ہیں۔ایک یہ کہ حضرت فاطمہ ؓ آپ کے بعد زندہ رہیں گی۔ چنانچہ وہ چھ ماہ بعد تک زندہ رہیں اور دوسرا معجزہ خاندان میں سے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ملنے والی ہیں۔ دونوں باتیں حرف بہ حرف پوری ہوئیں جو آپ کی نبوت کی زبردست دلیل ہیں۔