تشریح:
1 ۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔ شام میں ان دنوں کفار کی حکومت تھی اور ان کے تیار کردہ جبے تنگ آستینوں والےتھے۔ اس سے معلوم ہواکہ کفار مشرکین کے تیار کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہے بشر یکہ اس بات کا یقین ہو کہ یہ نجاست آلود نہیں۔ (شرح ابن بطال:25/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اپنا مدعا بایں طور ثابت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دارالکفر کا تیار کردہ جبہ استعمال فرمایا اور یہ دریافت نہیں کیا کہ اسے کس نے بنایا ہے اور اس کی تیاری میں کوئی ناپاک چیز تو استعمال نہیں کی گئی، پھر اس کے دھونے کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ ثابت ہوا کہ ان چیزوں کے متعلق کریدنے کی ضرورت نہیں۔ جب تک اس کے نجس ہونے کے متعلق خصوصی دلیل نہ ہو اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خصوصی دلیل کے لیے مشاہدہ یا مخبر صادق کی اطلاع کا ہونا ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر امام بخاری ؒ کا یہی مقصد تھا تو عنوان میں جبہ شامیہ کی قید لگائی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری عام طورپر الفاظ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے عنوان بندی کا اہتمام کرتے ہیں۔ 3۔ کفار ومشرکین اور یہود وہنود کے مستعمل کپڑوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟چونکہ ہمارے ہاں غیر مسلم ممالک سے مستعمل کپڑے درآمد کیے جاتے ہیں، جسے ’’لنڈے کا مال‘‘ کہا جاتاہے۔ ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ جو کپڑے اوپر کے حصہ جسم پر استعمال ہوتے ہوں، جیسا کہ چادر، قمیص اورجرسی وغیرہ، وہ طاہر سمجھے جائیں گے اور جو کپڑے جسم کے نچلے حصے پر استعمال ہوتے ہیں، جیسے پاجامہ، شلوار، پینٹ اور جانگیہ وغیرہ انھیں دھو کر استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ طہارت ونظافت کا اہتمام نہیں کرتے اور نہ نجاست سے احتراز کرتے ہیں، لہذا بظاہر ایسے کپڑے بول وبراز سے ملوث ہوں گے۔ موفق ابن قدامہ ؒ نےلکھا ہے کہ امام احمد حنبل ؒ کے نزدیک اگر ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے تو اس نماز کا اعادہ، انھیں زیادہ پسند ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ لنڈے کے وہ کپڑے جو کفار ومشرکین نے جسم کے نچلے حصے میں استعمال کیے ہوں، انھیں دھوکر کارآمد بنایاجاسکتا ہے۔ انھیں دھوئے بغیر استعمال کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔