تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے جو کوئی اپنا کپڑا پھیلا رکھے حتی کہ میں اپنا کلام پورا کرلوں،پھر اس کپڑے کو اپنے سینے سے لگالےتو وہ اس کلام سے کوئی بات نہیں بھولے گا۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا کمبل ہی پھیلادیا۔میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔جب آپ نے اپنا کلام پورا کرلیا تو میں نے اسے اپنے سینے سے لگالیا۔اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے!اس وقت سے لے کر آج تک میں اس کلام کو نہیں بھولا ہوں۔(صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث:2350)لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ میں اس دن کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ہوں۔(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6397(2492)صحیح پیش کردہ حدیث میں بھی عموم ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ صرف وہی کلام نہیں بلکہ کوئی حدیث بھی نہیں بھولے ہیں۔2۔چادر میں رسول اللہ ﷺ نے دعاؤں کے ساتھ برکت کو گویا لپ بھر کر ڈال دیا جس کی بدولت حضرت ابوہریرہ کا حافظہ تیز ہوگیا۔آپ نے جب خیروبرکت سے اپنے سینے کو معمور کرلیا توحافظ حدیث اور راوی اسلام کہلائے۔آپ کو پانچ ہزار سے زائد احادیث زبانی یاد تھیں۔تف ہے ان لوگوں پر جو ایسے جلیل القدر حافظ حدیث کو حدیث فہمی میں ناقص ٹھہرا کر خود اپنی حماقت کا اظہار کرتے ہیں۔3۔اس حدیث میں بھی علامات نبوت کا اثبات مقصود ہے۔اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث بیان ہوئی ہیں،ان سب میں کسی نہ کسی طرح سے علامتِ نبوت کا ثبوت ملتا ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصد ہے۔واللہ أعلم۔