صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
5. باب: جب ایک کپڑے میں کوئی نماز پڑھے تو اس کو کندھوں پر ڈالے۔
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
5. بَابٌ: إِذَا صَلَّى فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ فَلْيَجْعَلْ عَلَى عَاتِقَيْهِ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
5. Chapter: If someone offers Salat (prayer) wrapped in a single garment, he should cross its corners round his shoulders
باب: جب ایک کپڑے میں کوئی نماز پڑھے تو اس کو کندھوں پر ڈالے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If someone offers Salat (prayer) wrapped in a single garment, he should cross its corners round his shoulders)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
365.
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے، اسے چاہئے کہ اس کے دونوں کناروں کو الٹ لے، یعنی اس کا دایاں کنارہ بائیں طرف اور بایاں کنارہ دائیں طرف ڈال لے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں نمازی کے لیے بحالت نماز سترپوشی کی ایک قسم بیان فرمائی ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کیونکہ نمازی کے لیے دوران نماز میں بسااوقات جسم کے کسی ایسے حصے کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جسے نماز کے علاوہ عام حالات میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض اوقات نماز میں کسی ایسے حصے کو ظاہر کرنا ہوتا ہے جسے عام حالات میں عورتوں کے لیے مردوں سے چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں کہ بحالت نماز ان کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ یہ حکم حق نماز کی وجہ سے ہے، جبکہ مرد حضرات عام حالات میں اپنے کندھوں کو ننگارکھ سکتے ہیں۔ دوسری صورت کی مثال چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم ہے کہ عورت کے لیے عام حالات میں اجنبی مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز نہیں، لیکن نماز کی حالت میں عورت کے لیے ان کا چھپانا ضروری نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس نوعیت کی سترپوشی اللہ کاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں تن تنہا بھی بیت اللہ کا عریاں ہوکر طواف نہیں کیاجاسکتا۔ جیسا کہ اکیلے آدمی کو اختیاری حالات میں ننگے ہوکر نماز پڑھنےکی اجازت نہیں۔ اس بحث کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے ایک رسالے میں بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے جس کا ہم نے اردو ترجمہ بعنوان’’مسلمان عورت کا پردہ اور اس کا لباسِ نماز‘‘ کیاہے۔ 2۔ حافظ ا بن حجر ؒ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی تاکید جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے اورجن احادیث میں ممانعت ہے وہ کراہت تنزیہی پر محمول ہے، لیکن امام احمد ؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کندھوں پر کپڑا ڈالے بغیر نماز جائز نہیں، گویا انھوں نے اس کو شرط صحت صلاۃ قراردیاہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن ترک واجب کی وجہ سے گناہکار ہوگا۔ (فتح الباري:611/1) علامہ کرمانی ؒ کہتے ہیں کہ بظاہر ممانعت کا تقاضا تو تحریم ہی ہے مگر اجماع جواز ترک پر ہوچکاہے، کیونکہ اصل مقصود تو سترعورۃ ہے، وہ کسی بھی طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:18/2) علامہ کرمانیؒ کا یہ اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے اس موقف سے اختلاف کیاہے۔ علامہ خطابی ؒ نے عدم وجوب پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کا ایک کنارہ کسی زوجہ محترمہ پر تھا اور وہ سورہی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ کندھوں پر ڈالا جاسکتا اور نہ اتنا چھوٹا ہی تھا کہ اسے بطور تہہ بند ہی استعمال کیا جاسکتا۔ اگرکندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوتا تو دوسرے کنارے سے انھیں ڈھانپا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دوران نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔ (إعلام الحدیث:250/1) حافظ ابن حجر ؒ خطابی ؒ کا استدلال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ محل نظر ہے۔ (فتح الباري:612/1) بظاہر امام بخاری ؒ کے مسلک میں تفصیل ہے کہ کپڑاگربڑا ہوتو اسے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے اور اگرتنگ ہوتو اسے تہبند استعمال کیاجائے، کندھوں پر ڈالنا ضروری نہیں۔ ان کا موقف امام احمد ؒ کے موقف سے مختلف ہے۔ امام احمد ؒ کندھوں کے ڈھانپنے کو صحت صلاۃ کے لیے شرائط قراردیتے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ صرف وجوب کے قائل ہیں اور اس وجوب کو بھی تنگی کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔ جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ علامہ کرمانی ؒ نے عنوان سے دوسری حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں مخالفت طرفین کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کندھوں پر کچھ ڈالا جائے گا، اس کے بغیر مخالفت طرفین نہیں ہوسکتی۔ (شرح الکرماني:19/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی تراجم بخاری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں: اس حدیث کی عنوان پر دلالت بایں طورہے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کا ایک دوسرے کے مخالف سمت ہونا ہی اس بات کا سبب ہے کہ کوئی کنارہ اس کے کندھوں پر ضرور ڈالا جائےگا۔حافظ ابن حجر ؒ جو امام بخاری ؒ کے رمزشناس ہیں، کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت اس انداز سے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مخالفت طرفین کے وقت کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے چاہیے کہ کندھوں پر کپڑا ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو اُلٹ لے۔ (مسند احمد:255/2) علامہ اسماعیلی ؒ اور ابونعیم ؒ نے بھی حسین کے طریق سے اسی طرح بیا ن کیاہے۔ (فتح الباري:611/1) مختصر یہ ہے کہ جب کپڑا اس قدر وسیع ہوکہ ستر پوشی کے بعد کندھوں کو ڈھانپاجاسکتا ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر کپڑا تنگ ہو کہ کندھوں کو چھپانے کے بعد ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتو ایسی حالت میں کندھوں کو کھلا رکھتے ہوئے تہ بند باندھ کر نماز پڑھ لینا بالاتفاق جائزہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
358
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
360
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
360
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
360
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
اگر ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرنے کی نوبت آجائے تو احتیاط اسی میں ہے کہ کپڑے کے کچھ حصے کو دونوں کندھوں پر ڈال لیا جائے کیونکہ بحالت نماز ستر عورۃ کے علاوہ کندھوں کا ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بدن ڈھک جائے گا اور اس کے گرنے یا کھل جانے کااندیشہ بھی نہیں رہے گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے، اسے چاہئے کہ اس کے دونوں کناروں کو الٹ لے، یعنی اس کا دایاں کنارہ بائیں طرف اور بایاں کنارہ دائیں طرف ڈال لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں نمازی کے لیے بحالت نماز سترپوشی کی ایک قسم بیان فرمائی ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کیونکہ نمازی کے لیے دوران نماز میں بسااوقات جسم کے کسی ایسے حصے کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جسے نماز کے علاوہ عام حالات میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض اوقات نماز میں کسی ایسے حصے کو ظاہر کرنا ہوتا ہے جسے عام حالات میں عورتوں کے لیے مردوں سے چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں کہ بحالت نماز ان کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ یہ حکم حق نماز کی وجہ سے ہے، جبکہ مرد حضرات عام حالات میں اپنے کندھوں کو ننگارکھ سکتے ہیں۔ دوسری صورت کی مثال چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم ہے کہ عورت کے لیے عام حالات میں اجنبی مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز نہیں، لیکن نماز کی حالت میں عورت کے لیے ان کا چھپانا ضروری نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس نوعیت کی سترپوشی اللہ کاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں تن تنہا بھی بیت اللہ کا عریاں ہوکر طواف نہیں کیاجاسکتا۔ جیسا کہ اکیلے آدمی کو اختیاری حالات میں ننگے ہوکر نماز پڑھنےکی اجازت نہیں۔ اس بحث کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے ایک رسالے میں بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے جس کا ہم نے اردو ترجمہ بعنوان’’مسلمان عورت کا پردہ اور اس کا لباسِ نماز‘‘ کیاہے۔ 2۔ حافظ ا بن حجر ؒ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی تاکید جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے اورجن احادیث میں ممانعت ہے وہ کراہت تنزیہی پر محمول ہے، لیکن امام احمد ؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کندھوں پر کپڑا ڈالے بغیر نماز جائز نہیں، گویا انھوں نے اس کو شرط صحت صلاۃ قراردیاہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن ترک واجب کی وجہ سے گناہکار ہوگا۔ (فتح الباري:611/1) علامہ کرمانی ؒ کہتے ہیں کہ بظاہر ممانعت کا تقاضا تو تحریم ہی ہے مگر اجماع جواز ترک پر ہوچکاہے، کیونکہ اصل مقصود تو سترعورۃ ہے، وہ کسی بھی طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:18/2) علامہ کرمانیؒ کا یہ اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے اس موقف سے اختلاف کیاہے۔ علامہ خطابی ؒ نے عدم وجوب پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کا ایک کنارہ کسی زوجہ محترمہ پر تھا اور وہ سورہی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ کندھوں پر ڈالا جاسکتا اور نہ اتنا چھوٹا ہی تھا کہ اسے بطور تہہ بند ہی استعمال کیا جاسکتا۔ اگرکندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوتا تو دوسرے کنارے سے انھیں ڈھانپا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دوران نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔ (إعلام الحدیث:250/1) حافظ ابن حجر ؒ خطابی ؒ کا استدلال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ محل نظر ہے۔ (فتح الباري:612/1) بظاہر امام بخاری ؒ کے مسلک میں تفصیل ہے کہ کپڑاگربڑا ہوتو اسے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے اور اگرتنگ ہوتو اسے تہبند استعمال کیاجائے، کندھوں پر ڈالنا ضروری نہیں۔ ان کا موقف امام احمد ؒ کے موقف سے مختلف ہے۔ امام احمد ؒ کندھوں کے ڈھانپنے کو صحت صلاۃ کے لیے شرائط قراردیتے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ صرف وجوب کے قائل ہیں اور اس وجوب کو بھی تنگی کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔ جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ علامہ کرمانی ؒ نے عنوان سے دوسری حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں مخالفت طرفین کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کندھوں پر کچھ ڈالا جائے گا، اس کے بغیر مخالفت طرفین نہیں ہوسکتی۔ (شرح الکرماني:19/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی تراجم بخاری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں: اس حدیث کی عنوان پر دلالت بایں طورہے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کا ایک دوسرے کے مخالف سمت ہونا ہی اس بات کا سبب ہے کہ کوئی کنارہ اس کے کندھوں پر ضرور ڈالا جائےگا۔حافظ ابن حجر ؒ جو امام بخاری ؒ کے رمزشناس ہیں، کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت اس انداز سے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مخالفت طرفین کے وقت کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے چاہیے کہ کندھوں پر کپڑا ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو اُلٹ لے۔ (مسند احمد:255/2) علامہ اسماعیلی ؒ اور ابونعیم ؒ نے بھی حسین کے طریق سے اسی طرح بیا ن کیاہے۔ (فتح الباري:611/1) مختصر یہ ہے کہ جب کپڑا اس قدر وسیع ہوکہ ستر پوشی کے بعد کندھوں کو ڈھانپاجاسکتا ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر کپڑا تنگ ہو کہ کندھوں کو چھپانے کے بعد ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتو ایسی حالت میں کندھوں کو کھلا رکھتے ہوئے تہ بند باندھ کر نماز پڑھ لینا بالاتفاق جائزہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطہ سے، انھوں نے عکرمہ سے، یحییٰ نے کہا میں نے عکرمہ سے سنایا میں نے ان سے پوچھا تھا تو عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ فرماتے تھے۔ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ ارشاد فرماتے سنا تھا کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے کپڑے کے دونوں کناروں کو اس کے مخالف سمت کے کندھے پر ڈال لینا چاہیے۔
حدیث حاشیہ:
التحاف اور توشیح اور اشتمال سب کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی کپڑے کا وہ کنارہ جو دائیں مونڈھے پر ہو اس کو بائیں ہاتھ کی بغل سے اور جو بائیں مونڈھے پر ڈالا ہو، اس کو داہنے ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کناروں کو ملا کر سینے پر باندھ لینا، یہاں بھی مخالف سمت کندھے سے یہی مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever prays in a single garment must cross its ends (over the shoulders)."