تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ کی کپڑوں کے متعلق بیان کردہ تفصیل میں ستر پوشی، پھر بدن پوشی کی رعایت مقدم معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کپڑے جو وسط جسم کے ستر کے لیے استعمال ہوتے ہیں انھیں آپ نے پہلے بیان فرمایا، کیونکہ جسم کے جس حصے کا سترضروری ہے وہ وسط جسم ہی ہے، پھر جو کپڑے وسط جسم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ تین ہیں: ازار، پاجامہ اور جانگیہ۔ ان تینوں میں سے ازار کو سب سے پہلے رکھا، یہ کثیر الاستعمال بھی ہے اور جسم کے لیے ساتربھی۔ گویا آپ نے سترعورۃ کے لحاظ سے کپڑوں کے تین درجے بتائے ہیں: پہلے ازار، پھرپاجامہ، آخر میں جانگیے اس لیے رکھا کہ اس میں سترسب سے کم ہے، ہاں اگرچادریاقمیص کے ساتھ اس کااستعمال ہوتو چنداں حرج نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگرنمازی دوکپڑوں میں نماز پڑھے توتہ بند کے ساتھ اوپر کے جسم کے لیے چادر، کرتایا قبا بھی ہو، اگرپاجامے کے ساتھ پڑھے تو اس کے ساتھ بھی چادر یا کرتا یا قبا ہو۔ اگرجانگیے پہنے ہوئے ہوتواس کے ساتھ چادر یاکرتایا قبا ہوتا کہ سترپوشی کی رعایت زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔ (فتح الباري:617/1) حافظ ابن حجر ؒ نےلکھاہے کہ نماز کے وقت کپڑوں کا اہتمام ضروری ہے۔ جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے اورایک کپڑے میں نماز پڑھنا صرف تنگی اور افلاس کے وقت ہے۔ وہ کپڑوں میں نماز پڑھنا بہ نسبت ایک کپڑے کے افضل ہے۔ اگرچہ قاضی عیاض ؒ نے اس کےمتعلق اختلاف کی نفی کی ہے، تاہم ابن منذر ؒ کی عبارت سے اختلاف کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے ائمہ سے ایک کپڑے میں جواز صلاۃ کا کرکے لکھاہے کہ بعض حضرات نے دوکپڑوں میں نماز کو مستحب قراردیاہے، مگر اشبب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی قدرت ووسعت کے باوجود صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے گا تو وقت کے دوران میں اسکا اعادہ کرنا ہوگا ہاں اگروہ کپڑا موٹا ہوتو اعادے کی ضرورت نہیں اور بعض حنفیہ نے بھی شخص مذکور کی نماز کومکروہ کہا ہے۔ (عمدة القاري:286/3) 2۔ مصنف عبدالرزاق (356/1) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک کپڑے میں نماز کو مکروہ کہتے تھے اور اس کی اجازت کو اسلام کے ابتدائی دورمیں تنگی کے وقت پرمحمول کرتے تھے۔ جب لوگوں کو زیادہ کپڑے میسر نہ تھے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ اس کے خلاف ایک کپڑے میں نماز کومکروہ نہیں کہتے تھے۔ ان دونوں حضرات کے اختلاف کو سن کر حضرت عمر ؓ منبر پرکھڑے ہوئے اور اعلان فرمایا کہ درست بات وہی ہے جو حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں نہ کہ وہ جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں۔