تشریح:
1۔حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی اس حدیث میں شک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دوزمانوں کا ذکر کیا ہے یا تین کا۔حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ،حضرت ابوہریرہ ؓ ،اورحضرت بریرہ ؓ کی مرویات میں بھی شک ہے ،البتہ اس حدیث کے اکثر طرق شک کے بغیر ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ا پنے سمت تین زمانوں کو خیرالقرون قراردیا ہے۔ایک روایت میں چوتھے زمانے کا بھی ذکر ہے لیکن محدثین نے اسے صحیح قرارنہیں دیا۔2۔خیر القرون کےبعد جھوٹ اور خیانت عام ہوجائے گی اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کےبعد اس کا آغاز ہوچکا تھا لیکن وہ کسی شمار میں نہ تھا لیکن خیرالقرون کے بعد تو کھلے بندوں اس کا ارتکاب ہونے لگا۔3۔پھر اس حدیث میں ان نام نہاد مسلمانوں کے متعلق یہ پیش گوئی ہے جواخلاق وکردار کے اعتبار سے بدترین قسم کے لوگ ہوں گے۔جھوٹ،بددیانتی اور دنیا سازی رات دن ان کا مشغلہ ہوگا۔خیانت ایسی ظاہر ہوگی کسی کو دوسرے پر اعتماد نہیں ہوگا۔بے فکری اور حرام خوری کی وجہ سے ان کے جسم موٹے ہوجائیں گے۔موٹا آدمی ریاضت نہیں کرسکتا ۔یہ یاد رہے کہ وہ موٹا پامذموم ہے جو’’اپنی محنت اور کسب‘‘سے حاصل ہو۔اگر کوئی طبعاً موٹا ہوجائے تو وہ اس حدیث کا مصداق نہیں بشرط یہ کہ وہ اچھی صفات کا حامل ہو۔