تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی اس حدیث کو تین مختلف طرق سے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے۔2۔رسول اللہ ﷺ نے جس خلت کی نفی کی ہے اس میں حاجت کے معنی ہیں،یعنی اگرمیں تمام حاجات میں کسی کو اپنا مرجع اور جملہ مہماتِ امور میں کسی پر کلی اعتماد کرتا تو حضرت ابوبکر کو یہ استحقاق دیتا لیکن تمام امور میں میرا ملجا وماویٰ اور جس پر مجھے مکمل اعتماد ہے وہ صرف اللہ کی ذات گرامی ہے،البتہ ابوبکر میرا اسلامی بھائی ہے اور اخوتِ اسلام ہی افضل ہے۔اس طرح اس کے لیے یہ اعزاز ہی کافی ہے کہ وہ میرا یارغار ہے۔ (عمدة القاري:389/11) 3۔حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا:میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’ہر نبی کا کوئی نہ کوئی خلیل تھا میرا خلیل ابوبکر ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے میر اخلیل بنایا ہے۔جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا۔‘‘ (المعجم الکبیر الطبرانی:201/8۔ رقم:7816 و سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة، رقم:3035) یہ روایت حضرت جندب سے مروی ایک حدیث کے مخالف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا: ’’میں اللہ کے لیے اس امر سے بری ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1188(532) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :اگر حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی حدیث ثابت ہے تو ان میں جمع کی صورت اس طرح ممکن ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حضور اپنی انتہائی تواضع کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓ کی تکریم کے لیے اس وقت آپ کو اجازت دے دی۔ (فتح الباری:29/7) بہرحال حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی حدیث کو صحیح بخاری ؒ کی حدیث کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہے۔ (عمدة القاري:392/11)