تشریح:
1۔ اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے خلیفہ ہونے کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے کہا گیا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیں تو انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا ان کا یہ کہنا مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے صراحت کے ساتھ کسی کی نامزد گی نہیں کی یہ اشارے کے منافی نہیں ہے۔البتہ طبرانی میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ کے بعد ہم اپنے اموال کے صدقات کس کے حوالے کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’میرے بعد اپنے صدقات ابوبکر کو ادا کرنا۔‘‘ اس روایت میں کچھ صراحت ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔ (فتح الباري:7/31) 2۔اس حدیث میں ان شیعہ حضرات کی تردید ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ ، اور حضرت عباس ؓ کو خلیفہ بنانے کی وصیت کی تھی۔ 3۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ دو طرح کے عنوان قائم کرتے ہیں ایک تو بنیادی توعیت کے ہیں جیسا کہ ان احادیث پر آپ نے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت کا عنوان قائم کیا ہے لیکن بعض دفعہ پیش کردہ احادیث میں بنیاد ی مسئلے کے علاوہ کوئی اضافی فائدہ بھی ہوتا ہے اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک الگ اضافی عنوان قائم کر دیتے ہیں جیسا کہ سابقہ احادیث پر ایک عنوان:(باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا ) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی : اگراللہ کے سوا میں کسی کو خلیل بنانا تو ابو بکر کو بناتا‘‘ قائم کیا ہے یہ وضاحت اس لیے ضرروی کہ پیش کردہ مذکورہ حدیث کی اضافی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں بلکہ اس کی بنیادی عنوان سے مطابقت ہے۔ واللہ أعلم۔