تشریح:
1۔ عنوان سے اس حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ محرم کو قمیص، پاجامہ اوربارانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ وہ ان سلے کپڑے استعمال کرے اور انھی بغیر سلے احرام والی چادروں میں نماز پڑھے۔ اس سے معلوم ہواکہ نماز کے لیے کپڑے کا سلا ہوا ہوناضروری نہیں، بلکہ اَن سلے کپڑوں میں بھی نماز ہوجاتی ہے، جیسا کہ احرام کی حالت سے ظاہرہے۔ ثابت ہوا کہ کسی خاص کپڑے کی پابندی صحت نمازکے لیے ضروری نہیں حتی کہ اس کا سلا ہواہونا بھی ضروری نہیں، کیونکہ احرام کی حالت میں مردوں کے لیے سلاہوا کپڑاممنوع ہے۔ باب سے مطابقت بایں طور پر بھی ہے کہ اس حدیث کے مطابق قمیص یاپاجامے کی ممانعت صرف محرم کے لیے ہے، خارج از احرام ممانعت نہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ غیر محرم ان کپڑوں، یعنی قمیص اورپاجامے میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ واضح رہے کہ ابن ابی ذئب نے یہ حدیث دوطریق سے حاصل کی ہے: ©۔ عن الزهري ؓ ، عن سالم عن عبداللہ بن عمر ؓ ©۔ عن الزهري ، عن نافع ، عن عبداللہ بن عمرؓ ، قبل ازیں کتاب العلم (حدیث نمبر:134) میں طریق نافع بیان کرکے طریق سالم کا اس پر عطف ڈالاتھا اور یہاں اس کے برعکس کیاہے، یعنی طریق سالم بیان کرکے طریق نافع کا اس پرعطف ڈالاہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس روایت کے دونوں طریق ایک دوسرے کے موئید ہیں۔ (فتح الباري:617/1)