قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا»)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ

3674. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ أَبُو الْحَسَنِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ فَقُلْتُ لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا قَالَ فَجَاءَ الْمَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا خَرَجَ وَوَجَّهَ هَا هُنَا فَخَرَجْتُ عَلَى إِثْرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ فَتَوَضَّأَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ فَقُلْتُ لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَدَفَعَ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَقُلْتُ عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَقَالَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي فَقُلْتُ إِنْ يُرِدْ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يُرِيدُ أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْتَأْذِنُ فَقَالَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَجِئْتُ فَقُلْتُ ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ إِنْ يُرِدْ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ فَجَاءَ إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْتُ عَلَى رِسْلِكَ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ فَجِئْتُهُ فَقُلْتُ لَهُ ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُكَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُ مِنْ الشَّقِّ الْآخَرِ قَالَ شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔

3674.

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے اپنے گھر وضو کیا اور باہر نکلتے دل میں کہنے لگے کہ میں آج رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ضرور آپ کے ساتھ رہوں گا، چنانچہ وہ مسجد میں آئے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے کہا: آپ باہر کہیں اس طرف تشریف لے گئے ہیں، لہذا میں آپ کے قدموں کے نشانات پر آپ کے متعلق پوچھتا ہوا روانہ ہوا اور چاہ اریس تک جاپہنچا اور دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ رفع حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کرچکے تو میں آپ کے پاس گیا۔ آپ چاہ اریس، یعنی اس کی منڈیر کے درمیان کنویں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوئے تھے اور ا پنی پنڈلیوں کو کھول کر کنویں میں لٹکا رکھا تھا۔ میں آپ کو سلام کرکے لوٹ آیا اور دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج نبی کریم ﷺ کا دربان بنوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر  ؓ تشریف لائے اور انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا: کون ہے؟ انھوں نےکہا: ابوبکر ہوں۔ میں نے کہا: ذرا ٹھہریے۔ میں نے جاکر (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابوبکر اجازت مانگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ان کو آنے دو اور جنت کی بشارت بھی سناؤ۔‘‘  لہذا میں نے واپس آکر ابوبکر ؓ سے کہا: اندر آجایئے اور رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں، چنانچہ ابوبکر ؓ  اندر آئے اور رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب آپ کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے اور انھوں نے بھی اسی طرح ا پنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکادیے جس طرح نبی کریم ﷺ نے لٹکا رکھے تھے اور اپنی پنڈلیاں بھی کھول دیں۔ میں واپس جاکر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا اور اس نے بھی میرے پیچھے آنا تھا۔ میں نے(اپنے دل میں) کہا: اگر اللہ کو فلاں، یعنی میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو ضرور اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی دروازہ ہلارہا ہے۔ میں نے پوچھا: کون ہے؟ اس نے کہا: عمر بن خطاب ہوں۔ میں نے کہا: ذرا ٹھہریے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پا س آیا اور آپ کو سلام کرکے گزارش کی کہ حضرت عمرؓ حاضر ہیں اور آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’انھیں اجازت دو اور جنت کی بشارت سناؤ۔‘‘ میں نے واپس آکر کہا: اندر آجائیں اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ وہ اندر آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کنویں کی منڈیر پرآپ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکادیے۔ پھرواپس آکر دروازے پر بیٹھ گیا اور دل میں وہی کہنے لگا کہ اگر اللہ فلاں کے ساتھ بھلائی چاہے گا تو اسے یہاں ضرور لے آئے گا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور دروازے کو حرکت دینے لگا میں نے پوچھا: کون ہے؟اس نے کہا: عثمان بن عفان ہوں۔ میں نے کہا: ٹھہریے۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور انھیں خبردی تو آپ نے فرمایا: ’’انھیں اندرآنے کی اجازت اور جو آزمائش انھیں پہنچے گی، اس کے بدلے میں جنت کی بشارت بھی دے دو۔‘‘ چنانچہ میں آیا اور ان سے کہا کہ آجاؤ اور رسول اللہ ﷺ نے اس مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ حضرت عثمان  ؓ بھی اندر آگئے اور انھوں نے منڈیر کو بھرا ہوا دیکھا تو وہ آپ کے سامنے دوسری جانب بیٹھ گئے۔ حضرت سعید بن مسیب نے کہا: میں نے اس طرح بیٹھنے سے ان کی قبروں کی جگہ مراد لی ہے۔