تشریح:
1۔اریس،مدینہ طیبہ ایک مشہور باغ ہے جو قباء کے قریب واقع ہے۔اسی کنویں میں رسول اللہ ﷺ کی وہ انگوٹھی گری جسے حضرت عثمان ؓ نے پہن رکھا تھا۔2۔اس حدیث میں خلفائے ثلاثہ کی فضیلت کا واضح بیان ہے اور ان میں حضرت ابوبکر ؓ افضل ہیں کیونکہ ان کو جنت کی بشارت پہلے دی گئی جبکہ ان کی نشست بھی رسول اللہ ﷺکے دائیں جانب تھی۔ایک روایت کے مطابق جب حضرت عثمان ؓ آئے تو آپ کچھ دیر خاموش رہے ،پر انھیں اندر آنے کی اجازت اور مصیبت آنے پر جنت کی بشارت دی۔(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3695) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بشارت سن کر اللہ کا شکر اد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے:اللہ المستعان۔اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق واضح پیش گوئی ہے کہ وہ ایک سنگین فتنے کی زد میں آئیں گے۔مسند احمد میں صراحت ہے کہ آپ کو ظلم کے طور پر شہید کیا جائے گا۔ (مسند أحمد:115/2) چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔3۔حضرت سعید بن مسیب کی کمال دامائی تھی ،حقیقت میں ایسا ہوا ہے۔حضرت ابوبکرؓ تورسول اللہﷺکے پاس دفن ہوئے اور حضرت عثمان ؓ آپ کے سامے بقیع غرقد میں ہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ آپ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓآپ کے بائیں جانب ہوں گے کیونکہ ایسا امرواقعہ کے خلاف ہے،چنانچہ انھوں نے ایک دوسری روایت میں وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ شیخین کی قبریں اکٹھی اور حضرت عثمان ؓ کی قبر الگ ہوگی۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7097)