تشریح:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ کیوں منتخب نہیں کردیتے تو انھوں نے فرمایا:اگر میں کسی کو نامزد کرتا ہوں تو اس کی مثال موجود ہےکہ اس شخص نے اپنا خلیفہ نامزد کردیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے لوگوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو ایک ہستی نے ایسا ہی کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ ﷺ میں نے خلافت کا بوجھ زندگی بھر اٹھایا اب مرنے کے بعد میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7218) چنانچہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے معاملہ شوری کے سپرد کردیا تاکہ اگر کوئی خلیفہ امور منکرہ کا مرتکب ہوتو ان پر اعتراض نہ ہو 2۔خلافت کے متعلق دیگر مباحث ہم کتاب الاحکام میں ذکر کریں گے البتہ حدیث کا تمتہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ رات گئے میرے ہاں آئے میرا دروازہ کھٹکھٹا یا حتی کہ میں بیدار ہو گیا۔ انھوں نے فرمایا : میرے خیال کے مطابق آپ سورہے تھے اللہ کی قسم!میں تو ان راتوں میں بہت کم ہی سو سکا ہوں آپ جائیں اور حضرت زبیر ؓ حضرت سعد ؓ کو بلا لائیں میں گیا اور ان دونوں بزرگوں کو بلا لایا پھر انھوں نے ان سے مشورہ کیا ،پھر مجھے بلا کر کہا : جاؤ حضرت علی ؓ کو بھی بلاؤں ۔ میں گیا انھیں بھی بلالایا۔آپ نے ان سے سرگوشی کے انداز میں بات کی یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی پھر حضرت علی ؓ ان کے پاس سے اس حال میں کھڑے ہوئے کہ انھیں خلافت ملنے کی توقع تھی اور حضرت عبدالرحمٰن ؓ کے دل میں بھی ان کے متعلق کچھ اس بارے میں ڈر تھا پھر انھوں نے مجھے کہا:جاؤ حضرت عثمان کو بلا لاؤ۔ میں گیا اور انھیں بلا لایا پھر انھوں نے ان سے راز داری کے انداز میں گفتگو کی۔ آخر صبح کے مؤذن نے ان کے درمیان علیحدگی کردی۔ بلآخر جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھ لی تو وہ منبر کے پاس جمع ہوئے انھوں نے وہاں م،وجود انصار و مہاجرین اور قائدین فوج کو بلایا جنھوں نے اس سال حضرت عمر کے ساتھ حج کیا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے خطبہ پڑھا پھر اپنی گفتگو کا ان الفاظ میں آغاز کیا:’’اے علی ؓ ! میں نے لوگوں کے خیالات معلوم کیے اور میں نے محسوس کیا کہ وہ حضرت عثمان ؓ کو مقدم سمجھتے ہیں اور ان کے برابر کسی کوخیال نہیں کرتے اس لیے آپ اپنے دل میں کوئی میل پیدا نہ کریں پھر(حضرت عثمان سے)کہا:میں آپ سے اللہ کے دین اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی سنت پر قائم رہنے اور آپ کے پیش رودو خلفاء کے طریق کار کو اختیار کرنے پر بیعت کرتا ہوں‘‘ چنانچہ سب سے پہلے ان سے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بیعت کی پھر مہاجرین و انصار اور فوج کے سر براہوں الغرض تمام مسلمانوں نے بیعت کی۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7207) 3۔ حدیث میں(أهل الدار) کے الفاظ آئے ہیں جس کے معنی ہیں کہ آپ کے گھر والے آئے اور انھوں نے بیعت کی، البتہ بعض شارحین نے(أهل الدار) سے مراد مدینہ کے لوگ لیے ہیں۔ واللہ أعلم۔