تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ عورت اگر ایک ہی چادر میں اچھی طرح لپٹ کر نماز ادا کرے تو نماز درست ہے، کیونکہ اس حدیث میں صرف چادروں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، ان کے ساتھ دوسرے کپڑوں کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ چونکہ عورت کا پورا جسم چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ قابل ستر ہے، اس لیے عورتوں کے معاملے میں صحت نماز کا دارومدار کپڑوں کی گنتی پر نہیں بلکہ ستر پر ہے۔ اگر عورت سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لے تو نماز کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ آئمہ کرام سے عورتوں کے لیے کپڑوں کی تعداد منقول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے لیے نماز کی صحت کسی گنتی پر موقوف ہے۔ چونکہ عام حالات میں عورت کا جسم چھپانے کے لیے ایک سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے زیادہ کپڑوں کے استعمال کی ہدایت کی ہے، لیکن اگر ستر پوشی اور سارے جسم کو چھپانے کا مقصد ایک ہی کپڑے سے حاصل ہوجائے تو یہ بھی کافی ہے۔ چنانچہ امام ابن منذر ؒ نے جمہور کا قول کُرتے (قمیص) اور دوپٹے میں وجوب صلاۃ کا نقل کر کے لکھا ہے کہ اس سے مراد بدن اور سر کا ضروری طور پر چھپانا ہے اگر ایک ہی کپڑا اتنا بڑا ہو جس سے سارا بدن اور اس کے باقی حصے سے سر بھی چھپ سکے تو نماز درست ہو جائے گی۔ اس کے بعد حضرت عطاء ؒ اور ابن سیرین ؒ کے اقوال جو عورت کی نماز کے لیے کپڑوں کی تعداد سے متعلق ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اقوال استحباب پر محمول ہیں۔ (فتح الباري:625/1) 2۔ عورتیں جب نماز سے فراغت کے بعد گھروں کو جاتیں تو پتہ نہ چلتا کہ کون سی عورت ہے؟ البتہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عورت ہے مرد نہیں۔ عدم معرفت کی وجہ رات کا اندھیرا ہوتا یا ان کا خود کو چھپانا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی تھی۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:578) علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کی تھی، کبھی کبھار کسی ہنگامی صورت کے پیش نظر آپ نے صبح کی روشنی میں ادا کی ہے۔ نیز اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مسلم خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتی تھیں۔ چنانچہ عورتوں کا مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ (إعلام الحدیث:355/1) 3۔ امام بخاری ؒ کے استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ عورتیں چادر کو برقع کے طور پر استعمال کرتی تھیں، یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ استدلال کی بنیاد حدیث کا ظاہری مفہوم ہے۔ چونکہ دیگر کپڑوں کا ذکر نہیں، اس لیے احتمال ہے کہ کوئی اور کپڑا نہ ہو، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کی تصریح نہیں کی، لیکن ان کی عادت ہے کہ اپنے اختیارات (موقف) کو عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے حضرت عکرمہ ؒ کے حوالے سے اسے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:625/1) اس کے علاوہ یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی غربت کا دور تھا اس لیے حالات کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے پاس صرف ایک ہی چادر ہو۔ نوٹ: صبح کی نماز اسفار میں ہو یا اندھیرے میں؟ اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ اس حدیث پر فوائد لکھنے کے بعد راقم نے اپنے گھر اس کا تذکرہ کیا کہ عورت صرف ایک چادر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس نے اس سے اپنے جسم کو لپیٹ رکھا ہو کیونکہ صحابہ کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، لہٰذا ممکن ہے کہ حالات کے پیش نظر اس وقت ایک ہی چادر ہو۔ اس پر اہلیہ نے تعلیق لگائی کہ آپ کا یہ کہنا محل نظر ہے، کیونکہ جب پردے سے متعلق سورۃ النور کی آیات نازل ہوئیں تو سب سے پہلے مہاجرین سابقین کی خواتین نے ان پر عمل کیا وہ اس طرح کہ انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور ان سے اپنے سراور سینے کو ڈھانپ لیا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4758) اگر ان کے پاس چادروں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے تو چادروں کو پھاڑنے کے بعد وہ کیا پہنتی تھیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خواتین اسلام کے پاس صرف چادریں ہی نہ تھیں بلکہ ان کے علاوہ اور لباس بھی تھا جسے وہ زیب تن کرتی تھیں لیکن مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ کسی عورت کے پاس صرف ایک چادر ہواور اسے اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کر جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتو اس مین نماز جائز ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے اسے اس وقت کی خواتین کے لیے دیگر کپڑوں کی عدم دستیابی سے معلق نہ کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ اللہ تعالیٰ اہلیہ کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ انھوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائی۔