باب:اس بارے میں کہ بغیر چادر اوڑھے صرف ایک کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To pray without a Rida)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
375.
حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت جابر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ اس وقت ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ ان کی دوسری چادر پاس ہی رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: اے ابوعبداللہ! آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں جبکہ آپ کی دوسری چادر الگ رکھی ہوئی ہے؟ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: جی ہاں! میں چاہتا ہوں کہ تم جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
تشریح:
1۔ بعض لوگ تکمیل ہئیت کے لیے چادر اوڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہی جب عام حالات میں چادر کا استعمال زینت کی تکمیل کے لیے ضروری خیال کیا گیا ہے تو نماز میں بھی چادر کی ضرورت ہونی چاہیے ۔ امام بخاری ؒ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ نماز کی صحت کا مدار کپڑوں کی گنتی یا نوعیت پر نہیں اس کی صحت کے لیے ستر پوشی کافی ہے، اگر ستر پوشی ایک ازار سے ہوجائے تو چادر کی ضرورت نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ چادر اوڑھنے سے زینت بڑھ جاتی ہے، لیکن نماز کی صحت کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں، جیسا کہ حضرت جابر ؓ نے چادر کے ہوتے ہوئے بیان جواز کے لیے اس کے بغیر نماز ادا کی ہے۔ 2۔ باب :9۔ میں حضرت عمر ؓ کا ایک فرمان بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی پر کشادگی فرماتا ہے تو اس وسعت کا اظہار ہوتا چاہیے۔ اس ارشاد سے وہم ہو سکتا ہے کہ شاید وسعت کی صورت میں ایک کپڑے سے نماز جائز نہ ہو۔ ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس وہم کے ازالے کے لیے اس باب کا انعقاد کیا ہو، کیونکہ اس میں وضاحت ہے کہ حضرت جابر ؓ کے پاس دوسری چادر موجود تھی، لیکن انھوں نے اس وسعت کے باوجود ایک ہی کپڑے میں نماز ادا فرمائی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وسعت کے باوجود ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا تقوی کے خلاف نہیں۔ 3۔ حضرت جابر نے زبانی مسئلہ سمجھانے کے بجائے عملی تعلیم کا اہتمام کیا ہے، کیونکہ اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی عادت ہے کہ وہ سنن وآداب اور مستحبات کے ساتھ فرض و واجب جیسا معاملہ کرتے ہیں، حالانکہ ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا چاہیے، اس لیے حضرت جابر نے لوگوں کو تعلیم دی اس سےیہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیمی مقاصد کے پیش نظر بعض اوقات اولیٰ اور بہتر چیز کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر ؓ نے کیا، کیونکہ نماز ایک کپڑے میں پڑھنا جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ اگر زیادہ کپڑوں کی گنجائش ہو تو نماز میں انھیں استعمال کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
368
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
370
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
370
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
370
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت جابر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ اس وقت ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ ان کی دوسری چادر پاس ہی رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: اے ابوعبداللہ! آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں جبکہ آپ کی دوسری چادر الگ رکھی ہوئی ہے؟ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: جی ہاں! میں چاہتا ہوں کہ تم جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ بعض لوگ تکمیل ہئیت کے لیے چادر اوڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہی جب عام حالات میں چادر کا استعمال زینت کی تکمیل کے لیے ضروری خیال کیا گیا ہے تو نماز میں بھی چادر کی ضرورت ہونی چاہیے ۔ امام بخاری ؒ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ نماز کی صحت کا مدار کپڑوں کی گنتی یا نوعیت پر نہیں اس کی صحت کے لیے ستر پوشی کافی ہے، اگر ستر پوشی ایک ازار سے ہوجائے تو چادر کی ضرورت نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ چادر اوڑھنے سے زینت بڑھ جاتی ہے، لیکن نماز کی صحت کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں، جیسا کہ حضرت جابر ؓ نے چادر کے ہوتے ہوئے بیان جواز کے لیے اس کے بغیر نماز ادا کی ہے۔ 2۔ باب :9۔ میں حضرت عمر ؓ کا ایک فرمان بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی پر کشادگی فرماتا ہے تو اس وسعت کا اظہار ہوتا چاہیے۔ اس ارشاد سے وہم ہو سکتا ہے کہ شاید وسعت کی صورت میں ایک کپڑے سے نماز جائز نہ ہو۔ ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس وہم کے ازالے کے لیے اس باب کا انعقاد کیا ہو، کیونکہ اس میں وضاحت ہے کہ حضرت جابر ؓ کے پاس دوسری چادر موجود تھی، لیکن انھوں نے اس وسعت کے باوجود ایک ہی کپڑے میں نماز ادا فرمائی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وسعت کے باوجود ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا تقوی کے خلاف نہیں۔ 3۔ حضرت جابر نے زبانی مسئلہ سمجھانے کے بجائے عملی تعلیم کا اہتمام کیا ہے، کیونکہ اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی عادت ہے کہ وہ سنن وآداب اور مستحبات کے ساتھ فرض و واجب جیسا معاملہ کرتے ہیں، حالانکہ ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا چاہیے، اس لیے حضرت جابر نے لوگوں کو تعلیم دی اس سےیہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیمی مقاصد کے پیش نظر بعض اوقات اولیٰ اور بہتر چیز کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر ؓ نے کیا، کیونکہ نماز ایک کپڑے میں پڑھنا جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ اگر زیادہ کپڑوں کی گنجائش ہو تو نماز میں انھیں استعمال کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمن بن ابی الموالی نے محمد بن منکدر سے، کہا میں جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایک کپڑا اپنے بدن پر لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، حالانکہ ان کی چادر الگ رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا اے ابوعبداللہ! آپ کی چادر رکھی ہوئی ہے اور آپ ( اسے اوڑھے بغیر ) نماز پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے فرمایا، میں نے چاہا کہ تم جیسے جاہل لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیں، میں نے بھی نبی ﷺ کو اسی طرح ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Al-Munkadir (RA): I went to Jabir bin 'Abdullah and he was praying wrapped in a garment and his Rida was Lying beside him. When he finished the prayers, I said "O 'Abdullah! You pray (in a single garment) while your Rida' is lying beside you." He replied, "Yes, I did it intentionally so that the ignorant ones like you might see me. I saw the Prophet (ﷺ) praying like this. "