تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر کوئی شخص ریشم کا لباس پہن کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ ریشم پہننے کا گنا ہ اسے ضرور ملے گا، کیونکہ اس کا پہننا مردوں کے لیے حرام ہے۔ جیسا کہ محرم کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننا حرام ہے، لیکن اگر پہن لے اور نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ ان عوارض کی وجہ سے جو نقصان آتا ہے، اس کی تعبیر کراہت سے کی جاتی ہے۔ چنانچہ علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ جو شخص ریشمی کپڑا پہن کر نماز ادا کرتا ہے، اس کی نماز صحیح ہے، اگرچہ ہمارے نزدیک مکروہ ہے۔ (إعلام الحدیث:357/1) یہ بھی واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو ریشمی کوٹ پہن کر نماز پڑھی تھی وہ دومة الجندل کے بادشاہ اکیدر بن عبدالملک نے آپ کو بطور تحفہ دیا تھا۔ (صحیح مسلم، اللباس، حدیث:5422 (2071)) صحیح مسلم ہی میں قبائے دیباج کا ذکر ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، اللباس، حدیث: 5419 (2070)) اس لیے ممکن ہے کہ یہ نماز ریشمی کپڑا پہننے کی حرمت سے پہلے ادا کی ہو اور جب آپ کو اس کی حرمت کا پتہ چلا تو آپ نے ناگواری کے ساتھ اپنے جسم سے الگ فرمادیا۔ اور اگر آپ نے اس نہی سے پہلے اتاراتو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تحریم و ممانعت سے پہلے بھی حق تعالیٰ کی مرضیات پر نظر رکھتے تھے۔ 2۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک آپ نے ریشم استعمال نہیں کیا تھا اس وقت تک آپ کو اس کے عیب و نقصان کا انداز ہ نہ تھا جب آپ نے استعمال کیا تو اس کا عیب معلوم ہوا کہ یہ تو عیش پرست لوگوں کا لباس ہے اور اس کے استعمال سے جسم میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے جو مردانہ جفاکشی اور سخت کوشی کے خلاف ہے۔ مرد کا جسم تومضبوط ہونا چاہیے، اس لیے آپ نے اتارتے وقت فرمایا:’’یہ تقوی شعار لوگوں کا لباس نہیں عیش پرستوں کا لباس ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘ واضح رہے کہ شریعت نے چند ضرورتوں کے پیش نظر ریشم کے استعمال کی اجازت دی ہے، مثلاً: جہاد کے موقع پر زرہ کے نیچے ریشم کا استعمال درست ہے، تاکہ اگر دشمن کی تلوار زرہ کو کاٹ دے تو ریشم پر جا کروہ بے کار ہو جائے۔ کوئی اور کپڑا نہیں تو ستر پوشی یا سردی سے حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے۔ خشونت جسم کی وجہ سے خشک خارش یا جوئیں پڑگئی ہوں تو بغرض علاج اسے پہنا جا سکتا ہے۔ اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب اللباس میں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔