تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء داخل ہوئے تو ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔جب آپ فارغ ہوئے تو پوچھا:پوچھا یہ پانی کس نے رکھا ہے؟بتایا گیا کہ ابن عباس ؓنے خدمت گزاری کی ہے توآپ ﷺنے یوں دعا فرمائی:"اے اللہ! اسے دین میں سمجھ عطا فرما۔"( فتح الباری 126/7۔) رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں برکت تھی کہ حضرت ابن عباس ؓ قرآن فہمی اوردینی فقاہت میں کمال مہارت رکھتے تھے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓآپ کے متعلق فرماتے ہیں:آپ بہترین ترجمان القرآن تھے۔مسند بزار میں رسول اللہﷺ کی دعا کے یہ الفاظ بیان کیے گئے ہیں:اے اللہ!اسے قرآن کی تاویل سکھادے۔( صحیح البخاری الوضوء حدیث 143۔)2۔لفظ حکمت حضرات انبیاءؑاور غیر انبیاء ؑدونوں کے لیے مستعمل ہے۔اگرانبیاءؑکے لیے ہےتو اس کے معنی ہیں:نبوت اور اصابت جیسا کہ حضرت داؤدؑکے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:"ہم نے اس کو حکمت عطا فرمائی۔"( فتح الباری 127/7۔) اس حکمت سے مراد نبوت ہے اور اگرانبیاء ؑکے لیے مستعمل ہوتو اس کے معنی ہیں:رائے کا درست ہونا۔بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حکمت سے مراد وہ نور ہے جو الہام اور وسواس میں فرق کرتا ہے۔امام بخاریؒ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ حکمت کا لفظ جب غیرنبوت کے لیے ہوتو اس کے معنی اصابت کے ہیں۔بہرحال حضرت ا بن عباس ؓ حبرالامت اورتفسیر قرآن کے سلسلے میں تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے زیادہ علم رکھتے تھے۔واللہ اعلم۔